تاریخی بڑھیا
ہماری کتابوں میں کچھ ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں مرکزی کردار ایک لاچار بڑھیا کا ہوتا ہے اور امت کے سرخیل حضرات حضور علیہ السلام یا ابوبکر صدیق یا عمر فاروق جیسے ان کی خدمت گذاری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. تعجب کی بات یہ ہے کہ اس ایک بڑھیا کے کردار پر اتنی کہانیاں گھڑی گئی ہیں کہ بعض اوقات بیان کرنے والے بھی گڑبڑا جاتے ہیں کہ یہ کونسا واقعہ ہے اور کونسا سنانے لگے تھے
١. کچرہ پھینکنے والی بڑھیا
یہ واقعہ اس کثرت اور شدت سے بیان کیا گیا ہے کہ اب یہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے واقعات سے بھی زیادہ بیان اور اعتماد کیا جانے والا واقعہ شمار ہونے لگا ہے.
واقعہ:
ایک بوڑھی عورت آپ علیہ السلام کے راستے میں کچرہ پھینکتی تھی، ایک بار جب کچرہ نہیں پھینکا گیا تو آپ علیہ السلام نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ وہ عورت بیمار ہوگئی ہے، آپ علیہ السلام اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے تو وہ عورت آپ کے اخلاق دیکھ کر مسلمان ہوگئی.
واقعہ کا حکم:
یہ واقعہ بلکل من گھڑت ہے اور ایسا نہ تو مکہ میں ہوا اور نہ مدینے میں.
کچره پھینکنے کا اصل واقعہ:
ام جمیل ابولہب کی بیوی مکہ میں کانٹے اور کچره آپ علیہ السلام کے گھر کے سامنے پھینکتی تھی جس پر آپ علیہ السلام فرماتے تھے:
“ای جوار هذہ؟”
یہ کیسا پڑوس ہے، اور سورة اللهب میں اللہ تعالی نے
“حمالة الحطب”
اسی عورت کے بارے میں فرمایا.
٢. مکہ چھوڑ کر جانے والی بڑھیا
یہ بڑھیا حضور علیہ السلام کو دیکھے بغیر آپ کی دعوت سے بیزار ہوکر مکہ چھوڑنے کیلئے گھر سے نکلتی ہے اور اس کا سامان اٹھانے والا بھی کوئی نہیں، حضور اکرم اس کا سامان اٹھاتے ہیں اور یہ عورت شکریہ میں محمد سے دور رہنے کی نصیحت کرتی ہے، لیکن معلوم ہوجانے پر مسلمان ہوجاتی ہے.
واقعہ کا حکم:
یہ واقعہ بھی کسی مستند کتاب میں موجود نہیں.
٣. سامان والی بڑھیا
یہ بیچاری بڑھیا سخت دھوپ میں سامان کے ساتھ بیچ راستے میں کھڑی ہے اور کوئی سامان اٹھانے والا نہیں، اتنے میں آپ علیہ السلام اس کا سامان اٹھاکر گھر پہنچاتے ہیں اور یہ عورت محمد سے دور رہنے کا مشورہ دیتی ہے، لیکن معلوم ہوجانے پر مسلمان ہوجاتی ہے.
واقعہ کا حکم:
یہ واقعہ بھی کسی مستند کتاب میں موجود نہیں.
٤. وہ بڑھیا جس کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنه رات کو خدمت کیا کرتے تھے
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رات کی تاریکی میں ایک بوڑھی عورت کی خدمت کیا کرتے تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ معلوم ہوجائے کہ یہ کون کرکے جاتا ہے، اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ایسا کرنے والے ابوبکر صدیق ہیں.
اس قصے کی نسبت علامہ ابن القیم کی طرف کی جاتی ہے، لیکن یہ نسبت درست نہیں.
اس واقعے کی سندی حیثیت:
وهذه القصة لم يذكرها ابن القيم كما زعم الكاتب وهي مكذوبة لا أصل لها بهذه السياقة.
جس طرز اور انداز سے موجودہ زمانے میں یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ درست نہیں.
ومن السياقات المشهورة ما يلي: كان سيدنا عمر يذهب الى امرأة عجوز ليحضر لها الماء فيجد الماء قد احضر فتقول له: اشكرك لقد احضره لي ذلك الرجل حتى ان سيدنا عمر صار يراقب البيت فيقوم في الفجر فيجد الماء قد احضره سيدنا ابوبكر فقام عمر في الليل فوجد ابوبكر يحمل الماء وهو مسرع به الى بيت المراة فقال عمر: والله لن انافسك في شيئ ثاني يا ابابكر ابدا.
وهذا أيضاً كذب.
کتب میں اس واقعے کا وجود:
وأما القصة التي في الكتب فهي ما رواه ابن عساكر في تاريخ دمشق (30/322): أخبرنا أبوالقاسم الواسطي أنا أبوبكر الخطيب حدثني الحسن بن علي بن محمد الواعظ نا أبونصر إسحاق بن أحمد بن شبيب البخاري نا أبوالحسن نصر بن أحمد بن إسماعيل بن سائح بن قوامة ببخارا أنا جبريل بن مجاع الكمشاني بها نا قتيبة نا رشدين عن الحجاج بن شداد المرادي عن أبي صالح الغفاري أن عمر بن الخطاب كان يتعاهد عجوزا كبيرة عمياء في بعض حواشي المدينة من الليل فيستقي لها ويقوم بأمرها فكان إذا جاءها وجد غيره قد سبقه إليها فأصلح ما أرادت فجاءها غير مرة كيلا يسبق إليها فرصده عمر فإذا هو بأبي بكر الصديق الذي يأتيها وهو يومئذ خليفة؛ فقال عمر: أنت هو لعمري.
فهذه هي القصة بدون الزيادات الدرامية التي يزيدها بعضهم وهي ضعيفة جداً.
جبريل هذا مجهول عين،
ورشدين متروك،
والحجاج مجهول،
وأبوصالح الغفاري لم يدرك الصديق ولا الفاروق فالسند مظلم.
سند کی کمزوری:
١. جبریل :یہ راوی مجھول العین ہے، اس کی حالت کا کوئی علم نہیں.
٢. رشدین بن سعد :یہ راوی متروک ہے.
٣. حجاج بن شداد المرادی :یہ راوی مجهول ہے.
٤. ابوصالح الغفاري :اس راوی نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے لیکن ان کی ان حضرات سے ملاقات ثابت نہیں.
وهذا إسناد ضعيف جدا.
أبوصالح الغفاري لم يسمع من أبي بكر الصديق ولا من عمر رضي الله عنهما.
قال ابن يونس: يروي عن أبي هريرة، وهُبَيْب بن مُغْفِل، وروايته عن علي مرسلة، وما أظنه سمع منه.
“تهذيب التهذيب” (4/59(
فإذا كان لم يسمع من عليّ، فانتفاء سماعه من أبي بكر وعمر أولى.
حجاج بن شداد: مجهول.
قال ابن القطان: لا يعرف حاله.
)تهذيب التهذيب 2/202(.
رشدين بن سعد: ضعيف الحديث جدا.
ضعفه الإمام أحمد، وابن سعد، وأبوداود، وابن قانع، والدارقطني، وعمرو بن علي، وأبوزرعة، وغيرهم.
وقال أبوحاتم: منكر الحديث، وفيه غفلة، ويحدث بالمناكير عن الثقات.
وقال النسائي: متروك الحديث، لا يكتب حديثه.
“تهذيب التهذيب” (3/240-241)، “ميزان الاعتدال” (2/49(
وقد روى ابن سعد في “الطبقات” (3/138) (30/324(
خلاصہ کلام
یہ واقعہ جس طرح مشہور ہے وہ درست نہیں اور جو کتابوں میں موجود ہے وہ انتہائی ضعیف ناقابل بیان ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٧ ذوالقعدہ ١٤٣٨