مخطوبہ کو ایک نظر دیکھنا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو اس بات کا مشورہ دیا کہ جس عورت سے آپ رشتہ کرنا چاہتے ہو تو اس کو ایک نظر دیکھ لو
مخطوبہ کو ایک نظر دیکھنے کے متعلق روایات:
إذا خطبَ أحدُكمُ المرأةَ فإنِ استطاعَ أن يَنظرَ إلى ما يدعوهُ إلى نكاحِها فليفعلْ.
– الراوي: جابر بن عبدالله.
– المحدث: ابن حزم.
– المصدر: المحلى.
– الصفحة أو الرقم:10/31.
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی شخص کہیں رشتہ بھیجے تو اگر ممکن ہو تو اس عورت کو دیکھ لے کہ جس سے اس عورت سے شادی کی چاہت پیدا ہو، تو وہ ایسا کرلے.
كنتُ عند النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ . فأتاه رجلٌ فأخبره أنه تزوَّج امرأةً من الأنصارِ . فقال له رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ :
” أَنظَرْتَ إليها ؟ ” قال : لا . قال : ” فاذهبْ فانظُرْ إليها . فإنَّ في أعيُنِ الأنصارِ شيئًا ” .
– الراوي: أبو هريرة المحدث: مسلم
– المصدر: صحيح مسلم
– الصفحة أو الرقم: 1424 خلاصة حكم
المحدث: صحيح
● صحابہ رضی اللہ عنھم کا عمل:
٢. إذا خطب أحدكم المرأة، فإن استطاع أن ينظر إلى ما يدعوه إلى نكاحها فليفعل، قال: فخطبت جارية فكنت أتخبأ لها حتى رأيت منها ما دعاني إلى نكاحها وتزوجها فتزوجتها.
– الراوي: جابر بن عبدالله.
– المحدث: أبو داود.
– المصدر: سنن أبي داود.
– الصفحة أو الرقم: 208.
٣. إذا خطبَ أحدُكمُ المَرْأَةَ، فإنِ استطاعَ أن ينظُرَ إلى ما يدعوهُ إلى نِكاحِها فليفعل، فخطبتُ جارِيةً من بني سلمَةَ، فَكنتُ أتخبَّأُ لَها حتَّى رأيتُ منها ما دعاني إلى نِكاحِها فتزوَّجتُها.
– الراوي: جابر بن عبدالله.
– المحدث: عبدالحق الإشبيلي.
– المصدر: الأحكام الصغرى.
– الصفحة أو الرقم: 606.
– خلاصة حكم المحدث: أشار في المقدمة أنه صحيح.
٤. إذا خطبَ أحدكُم المرأةَ، فإن استطاعَ أن ينظرَ إلى ما يدعوهُ إلى نِكاحِها فليفعلْ، قال جابرٌ: فخطبتُ جاريةً من بنِي سلمةَ، فكنتُ أتخبأ لها تحتَ الكربِ حتّى رأيتُ منها بعضَ ما دعاني إلى نكاحِها فتزوجتُها.
– الراوي: جابر بن عبدالله.
– المحدث: محمد ابن عبدالهادي.
– المصدر: المحرر.
– الصفحة أو الرقم:351.
– خلاصة حكم المحدث: من رواية ابن إسحاق وهو صدوق.
• ان روایات میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ اپنا عمل بتارہے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے مجھے مخطوبہ کو دیکھنے کا حکم دیا تو میں نے چھپ کر اس کو دیکھا، اور بعض روایات میں ہے کہ انگور کے باغ میں چھپ کر اس خاتون کو دیکھا.
٥. رأَيْتُ محمَّدَ بنَ مسلمةَ يُطارِدُ ابنةَ الضَّحَّاكِ على إنجارٍ مِن أناجيرِ المدينةِ يُبصِرُها؛ فقُلْتُ له: أتفعَلُ هذا وأنت صاحبُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم؟ قال: نَعم، سمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ: “إذا ألقى اللهُ في قلبِ امرئٍ خِطبةَ امرأةٍ فلا بأسَ أنْ ينظُرَ إليها”.
– الراوي: محمد بن مسلمة.
– المحدث: ابن حبان.
– المصدر: صحيح ابن حبان.
– الصفحة أو الرقم: 4042.
– خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه.
• ایک اور صحابی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ چھپ کر اس خاتون کو دیکھ رہے ہیں جس کو رشتے کا پیغام دیا ہے.
٦. انظر إليها؛ فإنه أحرى أن يودم بينكما، فأتى أبويها، فأخبرهما بقول رسول الله صلى الله علیه وسلم، فكأنهما كرها ذلك، فسمعت ذلك المرأة وهي في خدرها، فقالت: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرك أن تنظر فانظر؛ وإلا فإني أنشدك؛ كأنها عظمت ذلك عليه، فنظرت إليها فتزوجتها، فذكر من موافقتها.
– الراوي: المغيرة بن شعبة.
– المحدث: الألباني.
– المصدر: التعليقات الرضية.
– الصفحة أو الرقم: 154/2.
– خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرطهما، وليس فيه قصة إتيانه أبويها، وله طريق أخرى.
٧. أنَّهُ خطبَ امرأةً فقالَ النَّبيُّ انظُر إليها فإنَّهُ أحرَى أن يُؤدَمَ بينَكُما، فأتَى أبوَيها فأخبرَهما بقَولِ رسولِ اللَّهِ فَكَأنَّهما كرِها ذلِكَ، فسمِعَت ذلِكَ المرأةُ وَهي في خِدرِها فقالَت: إن كانَ رسولُ اللَّهِ أمرَكَ أن تَنظُرَ فانظُرْ، قالَ المُغيرةُ: فنَظَرتُ إليها فتزوَّجتُها.
– الراوي: المغيرة بن شعبة.
– المحدث: الألباني.
– المصدر: غاية المرام.
– الصفحة أو الرقم: 212.
– خلاصة حكم المحدث: صحيح.
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے لڑکی والوں سے باقاعدہ لڑکی کے دکھانے کا مطالبہ کیا جو ان لوگوں کو ناگوار بھی گذرا، لیکن لڑکی نے کہا کہ اگر اللہ کے نبی نے آپ کو دیکھنے کا حکم دیا ہے تو میں پردہ اٹھاتی ہوں، اور پردہ اٹھایا تو وه ایک نظر دیکھ کر واپس آگئے.
فقہائے کرام کے اقوال:
ثم اختلفوا في القدر الذي يباح النظر إليه فوق ذلك على أربعة أقوال:
١. جمہور علمائے کرام کا قول:
مخطوبہ کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے، اس کے علاوہ جائز نہیں.
لا ينظر إلا إلى الوجه والكفين (مذھب الحنفية والمالكية والشافعية وقول عند الحنابلة) وقالوا: لان الوجه مجمع المحاسن والكفين على خصب البدن.
٢. بعض حنابلہ کا قول:
جسم کا وہ حصہ جو عموما ظاہر ہوتا ہے اس کا دیکھنا جائز ہے، مثلا چہرہ ہاتھ گردن وغیرہ.
يباح النظر إلى ما يظهر منها غالبا كالرقبة واليدين والقدمين. (مذھب الحنابلة(.
الدليل: لما أذون في النظر إليها من غير علمها علم انه أذن في النظر إلى جميع ما يظهر منها عادة.
– وما روي في ذلك أن عمر خطب بنت علي …….. فهو ضعيف.
٣. امام اوزاعی رحمه اللہ کا قول:
سوائے اندرونی جسم کے سب کچھ دیکھنا جائز ہے.
يجوز النظر إلى ما يريد منها إلا العورة (مذهب الاوزاعي(
٤. امام ابن حزم رحمه اللہ کا قول:
تمام بدن کا دیکھنا جائز ہے.
يجوز النظر إلى جميع البدن (قول ابن حزم ورواية عن احمد(
☆ جمہور کا قول ہی راجح ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کے علاوہ کا دیکھنا منع ہے.
الراجح قول الجمہور وھو جواز النظر إلى الوجه والكفين فقط.
دیکھنے کی کیفیت کیا ہونی چاہیئے:
روایات سے مندرجہ ذیل صورتیں واضح ہوتی ہیں:
١. لڑکی کے گھر والوں سے باقاعدہ ایک نظر دکھانے کا مطالبہ کیا جائے، جیسا کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے.
٢. لڑکا کسی طرح چھپ چھپا کر لڑکی کو ایک نظر دیکھ لے، جیسا کہ حضرت جابر اور محمد بن مسلمہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے.
٣. لڑکی کو باقاعدہ میک اپ وغیرہ کروا کر لڑکے کے سامنے لایا جائے، جیسا کہ آج کل عموما ہوتا ہے.
●پہلی صورت:
لڑکی کے گھر والوں سے باقاعدہ ایک نظر دکھانے کا مطالبہ کیا جائے، یہ عمل ابن حزم رحمه اللہ اور موجودہ زمانے کے عرب علماء کے نزدیک جائز اور درست ہے.
• دلیل: مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے.
●دوسری صورت:
لڑکا چھپ کر اس طرح لڑکی کو دیکھ لے کہ لڑکی یا اسکے گھر والوں کو اس کا علم نہ ہو، یہ صورت جمھور علماء اور موجودہ زمانے کے اکثر علماء کی رائے ہے.
دلیل: حضرت جابر اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنهما کا عمل ہے کہ باوجود حکم کے انہوں نے چھپ کر دیکھا، یہی بات حمیت اور غیرت کے بھی قریب ہے.
آپ علیہ السلام نے ہمیشہ رشتے کے معاملے میں خواتین کے قول پر اعتبار کیا حالانکہ آپ سے زیادہ شفیق اور مہربان امت کیلئے کوئی نہیں ہوسکتا، اور اسی میں لڑکیوں کی عزت نفس کی بھی حفاظت ہے اور گھر والوں کی عزت کا بھی پاس ہے، اور یہی بات حضرت مغیرہ کی روایت سے بھی واضح ہوتی ہے کہ جب لڑکی والوں سے لڑکی دکھانے کا مطالبہ کیا تو ان کو یہ بات ناگوار گذری، لیکن حضور اكرم صلی اللہ علیه وسلم کے حکم کی وجہ سے لڑکی نے چہرہ دکھایا.
اور اسی کے مطابق تقریبا تمام دارالافتاء فتوے دے رہے ہیں.
نکاح سے قبل مخطوبہ کو آمنے سامنے دیکھنا:
سوال(١١) :
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا کوئی شخص اپنی مخطوبہ کو آمنے سامنے دیکھ سکتا ہے، اگر نہیں تو ترمذی شریف کی اس روایت کا کیا جواب ہوگا جس میں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھنے کا حکم دیا تھا؟
الجواب باسمه سبحانه وتعالی:
(وباللّٰہ التوفیق) نکاح سے پہلے مخطوبہ کو کسی بھی طرح ایک جھلک دیکھنے کی خاطب کے لئے اجازت حدیث سے ثابت ہے؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقاعدہ دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر دکھایا جائے؛ کیوں کہ یہ صورت نہ صرف یہ کہ لڑکی کے خاندان والوں کے لئے ناپسندیدہ ہے؛ بلکہ حیا اور غیرت کے بھی خلاف ہے، اور اس کا دروازہ کھولنے سے بہت سے مفاسد کا اندیشہ ہے۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ ۱۰؍۴۸۱ ڈابھیل، احسن الفتاوی ۸؍۵۲)
عن جابر بن عبداللّٰہ رضي اللّٰہ عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیه وسلم: إذا خطب أحدکم المرأۃ، فإن استطاع أن ینظر إلی ما یدعوہ إلی نکاحها فلیفعل۔
(سنن أبي داؤد ۱؍۲۸۴ المکتبة الأشرفیة، دیوبند)
قال الحافظ في الفتح، قال الجمہور : لا بأس أن ینظر الخاطب إلی المخطوبة قالوا: ولا ینظر إلی غیر وجهها وکفیها …
وقال الجمہور أیضًا: یجوز أن ینظر إلیها إذا أراد ذٰلک بغیر إذنها۔
(فتح الملهم ۳؍۴۷۶ رشیدیة)
کتبه: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرله ۵؍۷؍۱۴۲۹ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد (عفا اﷲ عنه)
خلاصہ کلام
جہاں رشتہ بھیجا گیا ہو اس خاتون کو ایک نظر دیکھنے کی اگرچہ شریعت نے اجازت دے رکھی ہے، لیکن اس کیلئے کوئی ایسی تدبیر اختیار کرنا ہرگز جائز نہیں جو سراسر بےحیائی یا بےغیرتی کے دروازے کو کھول دے، بلکہ حکمت اور بصیرت سے ایسا راستہ اختیار کیا جائے کہ حکم بھی پورا ہو اور کسی کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٨ ذوالقعده ١٤٣٨