قربانی کرنے والے کے لئے بال اور ناخن کاٹنے کا حکم
سوال: گذشتہ کچھ عرصے سے اس بات کو بہت شد ومد سے چلایا جارہا ہے کہ یکم ذی الحج سے لےکر قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کاٹے جائیں، اور عموما یہ دیکھا جارہا ہے کہ جو لوگ فرض نماز کی بھی پابندی نہیں کرتے وہ اس عمل کی پابندی کرتے اور کرواتے نظر آرہے ہیں، برائے مہربانی اس عمل کی شرعی حیثیت بیان فرمائیں.
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ شریعت نے ہر عمل کی حیثیت اور حکم کو متعین کیا ہے اور اس عمل کو اسی درجے میں رکھنے کا حکم دیا ہے، نہ کسی فرض اور واجب کو نفل بنانے کی اجازت ہے اور نہ کسی نفلی عمل کو فرض یا واجب کا درجہ دینا درست ہے، لہذا اس عمل کو سب سے پہلے روایات کی روشنی میں دیکھا جائیگا.
بال اور ناخن کے متعلق وارد روایات:
اس عمل کے متعلق سب سے واضح روایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ہے:
آپ علیہ السلام نے فرمایا:
کہ تم میں سے جو شخص ذی الحج کا چاند دیکھے اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے.
عن أم سلمة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “إذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره”.
[أخرجه مسلم في كتاب الأضاحي، باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شعره أو أظفاره شيئا.ً رقم (1977) 3/1565.
– والترمذي وصححه في كتاب الأضاحي، باب ترك أخذ الشعر لمن أراد أن يضحي رقم (1523) 4/102.
– وابن ماجه في كتاب الأضاحي، باب من أراد أن يضحي فلا يأخذ في العشر من شعره وأظفاره رقم (3149 – 3150) 2/1052.
– وأحمد رقم (26696، 6/311(
اس عمل کی حکمت اور غرض:
١. اس حکم کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ قربانی کرنے والا شخص حج کرنے والے کے ساتھ بعض اعمال میں شریک ہوتا ہے، یعنی جس طرح حاجی دم شکر کی قربانی کرتے ہیں اسی طرح یہ قربانی کرنے والا بھی خون بہا رہا ہے، لہذا اس پر بھی بعض احکام لاگو کئے جائیں جیسے کہ حاجی پر کچھ پابندیاں لاگو کی گئی ہیں، تو جیسے حاجی کیلئے یہ حکم ہے کہ بال اور ناخن نہ کاٹو ویسے ہی قربانی کرنے والا اس پابندی میں اس کے ساتھ شریک ہوگا.
والحكمة في هذا النهي أنه لما كان المضحي مشاركا للمحرم في بعض أعمال النسك، وهوالتقرب إلى الله بذبح القربان كان من الحكمة أن يعطى بعض أحكامه، وقد قال الله في المحرمين: {ولا تحلقوا رؤسكم حتى يبلغ الهدي محله{
٢. بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس پابندی کی غرض یہ ہے کہ جب قربانی کرنے والا اپنی کیفیت کو دیکھےگا تو اس کو یاد آئیگا کہ میں اللہ تعالی کا ایک عظیم حکم پورا کرنے جارہا ہوں تو وہ اللہ کے ذکر میں لگ جائےگا، تسبیح و تہلیل کرنے میں مشغول ہوگا، گویا یہ حالت اسکی یاد دہانی کیلئے بنائی گئی ہے.
ويضاف إلى الحِكَمِ من النهي عن أخذ الشعر والأظفار في العشر هذه الحكمة الجليلة، وهي أن الله تعالى شرع ذلك ليكون للمضحي علامة ظاهرة في بدنه، يتذكر كلما رآها أنه في العشر فيهلل ويكبر ويجتهد في العبادة.
والله أعلم.
فقہائے کرام کے اقوال:
١. اس روایت کی بنیاد پر علماء کی ایک جماعت نے ان دس دنوں میں قربانی کرنے والوں کیلئے بال اور ناخن کاٹنے کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے، اس قول کو امام احمد اور امام اسحاق رحمها اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.
وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي الْقَوْلِ بِظَاهِرِ الْحَدِيثِ، فَذَهَبَ قَوْمٌ إِلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ لِمَنْ يُرِيدُ الأُضْحِيَّةَ بَعْدَ دُخُولِ الْعَشْرِ أَخْذَ شَعْرہ وَظُفْرہ مَا لَمْ يَذْبَحْ، وَإِلَيْهِ ذَهَبَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَبِهِ قَالَ رَبِيعَةُ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
٢ . جبکہ امام شافعی اور امام مالک رحمهما اللہ فرماتے ہیں کہ ان دس دنوں میں بال اور ناخن کاٹنا مکروہ تنزیہی ہے، حرام نہیں ہے.
الموسوعة الفقهية الكويتية 5/95
وقال المالكية والشافعية: يسن لمن يريد التضحية ولمن يعلم أن غيره يضحي عنه ألا يزيل شيئا من شعر رأسه أو بدنه بحلق أو قص أو غيرهما، ولا شيئا من أظفاره بتقليم أو غيره، ولا شيئا من بشرته كسلعة لا يضره بقاؤها.
المجموع للنووي 8/392،
والمغني لابن قدامة 11/96،
والشرح الصغير وحاشية الصاوي 2/141، ط: دار المعارف.
ان حضرات کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ روایت ہے جس میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ علیہ السلام اپنی قربانی کا جانور (حاجیوں کے ساتھ حرم) بھجواتے لیکن آپ اس دوران حلال رہتے اور حلال لوگوں جیسے ہی اعمال کرتے، اور کوئی حلال چیز اپنے اوپر حرام نہیں کرتے تھے.
لہذا اس عمل کو فقط سنت قرار دیا جائیگا اور اس کے خلاف کرنے کو مکروہ تنزیہی کہا جائیگا.
قَالَ الْقَاضِي وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا: هُوَ مَكْرُوهٌ، غَيْرُ مُحَرَّمٍ. وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ؛ لِقَوْلِ عَائِشَةَ: كُنْت أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يُقَلِّدُهَا بِيَدِهِ، ثُمَّ يَبْعَثُ بِهَا، وَلَا يَحْرُمُ عَلَيْهِ شَيْءٌ أَحَلَّهُ اللَّهُ لَهُ، حَتَّى يَنْحَرَ الْهَدْيَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
قال الإمام الشافعي: “البعث بالهدي اكثر من إرادة التضحية، فدل أنه لا يحرم ذلك، وحمل أحاديث النهي على كراهة التنزيه”.
٣. امام ابوحنیفہ رحمه اللہ کا قول یہ ہے کہ بال اور ناخن نہ کاٹنا ایک مستحب عمل ہے، اور کاٹنا مکروہ بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ عمل حاجی کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے ہے تو حاجی پر تو مکمل پابندیاں ہیں اور اس شخص پر لباس، وطی وغیرہ جیسے بڑے اعمال منع نہیں ہیں تو بال ناخن کاٹنے کی ممانعت بھی لازمی نہیں ہے، بلکہ اختیاری ہے کہ جو چاہے نہ کاٹے اور جو چاہے کاٹ لے.
القول الثالث: انه لا يكره، وهو قول أبي حنيفة ومالك في رواية.
قال الإمام أبوحنيفة: “لأنه لا يحرم عليه الوطی واللباس فلا يكره له حلق الشعر وتقليم الأظفار كما لو لم يرد أن يضحي”.
اس مسئلے میں سب سے زیادہ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اس روایت کی سند میں امام مالک اور سعید بن مسیب دو بہت بڑے محدثین اور امام موجود ہیں، لیکن ان دونوں راویوں کا اپنا قول اور عمل اس روایت کے خلاف ہے، لہذا امام مالک اور سعید بن مسیب رحمهما الله دونوں حضرات ان دس دنوں میں بال اور ناخن کے کاٹنے کو حرام قرار نہیں دیتے تھے.
اگرچہ بعض لوگوں نے سعید بن مسیب سے حرمت کا قول نقل کیا ہے
الحافظ أبوعمر ابن عبد البر رحمه الله: الحديث الذي رواه شعبة عن مالك بن أنس عن عمر بن مسلم بن أكيمة عن سعيد بن المسيب عن أم سلمة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “إذا دخل العشر فأراد أحدكم أن يضحي فلا يأخذ من شعره ولا من أظفاره شيئاً”. ففي هذا الحديث أنه لا يجوز لمن أراد أن يضحي أن يحلق شعراً ولا يقص ظفرا.
• وفي حديث عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يجتنب شيئا مما يجتنبه المحرم حين قلد هديه وبعث به، وهو يرد حديث أم سلمة ويدفعه ومما يدل على ضعفه ووهنه أن مالك روى عن عمارة بن عبدالله عن سعيد بن المسيب قال: لا بأس بالإطلاء بالنورة في عشر ذي الحجة، فترك سعيد لاستعمال هذا الحديث وهو راويته دليل على أنه عنده غير ثابت أو منسوخ.
وقد أجمع العلماء على أن الجماع مباح في أيام العشر لمن أراد أن يضحي، فما دونه أحرى أن يكون مباحا.
خلاصہ کلام
جو شخص عیدالاضحی کی قربانی کرنا چاہتا ہو (چاہے وہ خود اپنی طرف سے قربانی کرے یا اس کی طرف سے کوئی اور کرے) صرف اسی شخص کیلئے یہ مستحب ہے کہ ذی الحج کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے، لیکن یہ حکم نہ فرض ہے نہ واجب، اور نہ ہی قربانی کرنے والے کے علاوہ کسی اور پر لازم ہے.
ایسے ہی حج ادا کرنے والے وہ حضرات جو حج کے موقعے پر دم شکر کے علاوہ اپنے وطن کی قربانی نہیں کرنا چاہتے ان کیلئے بھی یہ حکم نہیں ہے.
اسی طرح وہ حضرات جو ان دس دنوں میں عمرہ کررہے ہوں تو ان کے ذمے حلق کرنا (یعنی سر کے بالوں کا منڈوانا) واجب ہے، وہ اپنے اس عمل کو بلاکراہت ادا کریں اگرچہ انہیں قربانی کرنی ہو.
لہذا جو بھی مرد یا عورت یا بچہ قربانی کرنا چاہے اس کیلئے اس عمل کو کرنا مستحب ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ