تنبیہ نمبر64

تکبیرات تشریق کی حقیقت

سوال :گذشتہ کچھ روز سے ایک ویڈیو مسلسل گردش کررہی ہے جس میں ایک مولانا صاحب نے تکبیرات تشریق کے متعلق کچھ اس طرح بتایا کہ  “تکبیر تشریق ” عشق اور محبت کا ترانہ ہے،  یہ عشق اور محبت کی ایک داستان ہے جسکو  اللہ رب العزت نے تین جملوں میں سمیٹ کر بیان کردیا.
جس وقت ذی الحج کی ١٠ تاریخ،  ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند دلبند کو ذبح کرنا چاہتے ہیں،  آسمان اور زمین کے تمام فرشتے پکار پکار کر کہہ رہے تھے :اللہ اکبر اللہ اکبر،  اللہ تو سب سے بڑا تو سب سے بڑا،  یا اللہ!  یہ کیا کہ باپ بیٹے کو ذبح کررہا ہے؟
فرشتوں کی پکار سن کر ابراہیم علیہ السلام کا جذبہ توحید اور جوش میں آیا اور یہ پکار اٹھے: لا اله الا اللہ واللہ اکبر
تیرے سوا کوئی معبود نہیں، مولا تو سب سے بڑا ہے.
یہ تو ایک اسماعیل ہے جسکو تجھ سے مانگا تھا،  ایسے سینکڑوں بھی ہوتے تو تیرے نام پر قربان کردیتا.
اور یہ ننھے میاں (حضرت اسماعیل علیہ السلام) اپنے نازک ہونٹوں کے ساتھ پیشانی جھکا کر زمین پر لیٹے ہوئے یہ سوچ رہے تھے کہ چھوٹا ہوں پتہ نہیں قبول کرینگے یا نہیں، اب جو سنی فرشتوں کی آواز اور جو سنی اپنے ابا کی پکار،  وہیں لیٹے لیٹے یہ کہہ اٹھے: اللہ اکبر وللہ الحمد،  اللہ جی تیرا شکر ہے مجھ ننھے کی قربانی تو نے قبول فرمالی.
یہ فرشتوں کی ندا، یہ ابراہیم علیہ السلام (خلیل اللہ) کی ندا اور یہ اسماعیل علیہ السلام کا محبت سے بھرپور کلام، ان تینوں کو جمع کرکے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عطا فرمادیا کہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی فجر سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک اس ترانے کو سب کے سب ادا کرتے چلے جاؤ.
ان پانچ ایام میں ہر مرد اور عورت پر ہر فرض نماز کے بعد ان تکبیرات کا پڑھنا واجب ہے.
الجواب باسمه تعالی
اس روایت کی اسنادی حیثیت:

یہ روایت جہاں جہاں بھی منقول ہے اس حکم کے بیان کے ساتھ ہی نقل کی گئی ہے کہ  یہ روایت ثابت نہیں ہے.

قال ابن نجيم في البحر:
وقد ذكر الفقهاء أنه مأثور
عن الخليل عليه السلام، وأصله أن جبريل لما خاف العجلة على إبراهيم عليه السلام فقال: الله أكبر الله أكبر؛ فلما رأه إبراهيم عليه السلام قال: لا إله إلا الله؛ فلما علم إسماعيل الفداء قال إسماعيل: الله أكبر ولله الحمد.
)كذا في غاية البيان وكثير من الكتب، ولم يثبت عند المحدثين(.
(وكذا في الشامي)

(تفسير كشاف میں یہ واقعہ “قیل” کے ساتھ زیادہ مفصل طور پر مذکور ہے)

تکبیرات تشریق کی حکمت:

حافظ ابن حجر رحمه اللہ تکبیرات تشریق کی حکمت یوں بیان فرمارہے ہیں کہ ہر مشکل اور ہر خوشی کے موقعے پر تکبیر کا پڑھنا سنت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جائے اور اس میں اللہ تعالی کی ذات کے ہر عیب سے منزہ (پاک) ہونے کا اقرار کرنا مقصود ہے خصوصا وہ نامناسب باتیں جن کی نسبت بدبخت یہودیوں نے اللہ تعالی کی ذات کی طرف کی ہے.

قال الحافظ: وأما التكبير فلأنه ذكر مأثور عند كل أمر مهول وعند كل حادث سرور شكرا لله تعالى وتبرئة له من كل ما نسب إليه أعداؤه ولاسيما اليهود قبحهم الله تعالى.
(فتح الباري لابن حجر: 2/4)
تکبیرات تشریق کا وقت:

اس کا وقت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین کے نزدیک عرفہ (9 ذی الحج) کی صبح سے ایام منی کے آخری دن (13 ذی الحج) تک ہے.

لہذا ان پانچ ایام میں ہر مسلمان عاقل بالغ مرد اور عورت پر ہر فرض نماز کے بعد ان تکبیرات کا پڑھنا واجب ہے.

قال الحافظ : وأصح ما ورد فيه عن الصحابة قول على وابن مسعود إنه من صبح يوم عرفة إلى آخر أيام منى.
– أخرجه ابن المنذر وغيره..والله أعلم.
(فتح الباري لابن حجر: 2/462)
وقال النووي: واختارت طائفة محققي الأصحاب المتقدمين والمتأخرين أنه يبدأ من صبح يوم عرفة ويختم بعصر آخر التشريق…
واختاره ابن المنذر والبيهقي وغيرهما من أئمة أصحابنا الجامعين بين الفقه والحديث وهو الذي اختاره.
[المجموع (5/34 و 35])
وقال: وقول أنه من صبح يوم عرفة إلى عصر آخر أيام التشريق وهو الراجح عند جماعة من أصحابنا وعليه العمل.
– شرح النووي على مسلم 6/180.
– الأوسط لابن المنذر 4/303 9.
– وسنن البيهقي: 5/101
وقال شيخ الإسلام: أصح الأقوال في التكبير الذي عليه جمہور  السلف والفقهاء من الصحابة والأئمة أن يكبر من فجر يوم عرفة إلى آخر أيام التشريق عقب كل صلاة ويشرع لكل أحد أن يجهر بالتكبير عند الخروج إلى العيد وهذا باتفاق الأئمة الأربعة.
مجموع الفتاوى: 24/220
خلاصہ کلام


تکبیرات تشریق نہ صرف یہ کہ صحیح روایات سے ثابت ہیں بلکہ جمہور امت کا تعامل بھی اسی پر رہا ہے،  لیکن اس کیلئے ایسی کمزور روایات سے استدلال کرنا  اور غیر مستند اقوال کو عام کرنا  عالمانہ  اور  عاقلانہ عمل ہرگز نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں