تنبیہ نمبر70

حضرت عمر کے دور کا انصاف

سوال: دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے کھڑے ہوکر اسکی طرف انگلی سے اشارہ کرکے کہتے ہیں: یاعمر ؓ!  یہ ہے وہ شخص…..
سیدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا کیا ہے اس شخص نے؟
وہ کہتے ہیں کہ یاامیر المؤمنین! اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔
سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں:  کیا کہہ رہے ہو،  اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟
سیدنا عمر ؓ اس شخص سے مخاطب ہوکر پوچھتے ہیں:  کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟
وہ شخص کہتا ہے:  ہاں امیر المؤمنین!  مجھ سے انکے باپ کا قتل ہوگیا ہے.
کس طرح قتل کیا ہے؟  سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
یاعمرؓ!  انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہوگیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مرگیا۔ پھر تو قصاص دینا پڑےگا،  موت ہے اسکی سزا۔  سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت،  اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں،  نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے،  نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ اسکا تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے،  نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اسکا تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں،  معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟  ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیا ہے،  کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓپر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے میں عمرؓ کو روک سکتا ہے۔  حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آکھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائےگا۔
وہ شخص کہتا ہے:  اے امیر المؤمنین!  اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس  جانے دیجیئے تاکہ میں انکو بتا کر آؤں کہ میں قتل کردیا جاؤں گا۔  ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے،  میں اسکے بعد واپس آجاؤں گا۔
سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں:  کون تیری ضمانت دےگا کہ تو صحراء  میں جاکر واپس بھی آجائےگا؟
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔  کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے،  خیمے یا  گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔
کون ضمانت دے اسکی؟  کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے  کی ضمانت کا معاملہ ہے؟  ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔
اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض  کرے،  یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہوجائے۔  اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔
محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے،  اس صورتحال سے خود عمر ؓ  بھی متأثر ہیں۔  کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔  کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کردیا جائے اور اس کے بچے بھوک سے مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائےگا.
خود سیدنا عمرؓ اس صورتحال پر سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کردو اس شخص کو۔
نہیں امیر المؤمنین!  جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں،  یہ تو ہو ہی نہیں سکتا،  نوجوان بغیر کسی جھجھک کے اپنا آخری فیصلہ سنا دیتے ہیں۔
عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں:  اے لوگو!  ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟
ابو ذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ میں اس شخص کی ضمانت دیتا ہوں.
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں:  ابوذر! اس نے قتل کیا ہے۔
چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔
عمرؓ:  جانتے ہو اسے؟
ابوذرؓ:  نہیں جانتا اسے۔
عمرؓ:  تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟
ابوذرؓ:  میں نے اس کے چہرے پر مؤمنوں کی صفات دیکھی ہیں،  اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ جھوٹ نہیں بول رہا،  انشاءاللہ یہ لوٹ کر واپس آجائےگا۔
عمرؓ:  ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑےگا۔
امیر المؤمنین،  پھر اللہ مالک ہے۔  ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔
سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پاکر وہ شخص رخصت ہوجاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے،   اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے،  اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔
اور پھر تین راتوں کے بعد،  عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے،  انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا،  عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعة) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بےچین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہوچکا ہے۔
ابو ذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آکر عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
کہاں ہے وہ آدمی؟  سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔
مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین!  ابوذر ؓمختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جہاں سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
محفل میں ‘ہو’ کا عالم ہے،  اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جارہا ہے؟
یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں،  کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کردیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے،  اللہ کے احکامات کی بجاآوری کا ہے،  کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جارہا،  نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہورہی ہے،  حالات اور واقعات کے مطابق نہیں،  اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔  اگر قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آرہی ہے۔
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آجاتا ہے،  بےساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے،  ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔
عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:  اے شخص! اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کرلینا تھا،  نہ تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا.
امیر المؤمنین!  اللہ کی قسم! بات آپکی نہیں ہے، بلکہ بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے،  دیکھ لیجئے میں آگیا ہوں،  اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح  صحراء میں تنہا چھوڑ کر،  جہاں نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔  میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔  مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔
سیدنا عمرؓ نے ابوذر کی طرف رخ کر کے پوچھا:  ابوذرؓ! تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟
ابوذرؓ نے کہا:  اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔
سیدنا عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا:  اے امیر المؤمنین! ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں،  ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگذر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔
سیدناؓ عمر اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکی داڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
اے نوجوانوں!  تمہارے عفو و درگذر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔
اے ابو ذرؓ!  اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔
اور اے شخص!  اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔ اور اے امیر المؤمنین،  اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔
الجواب باسمه تعالی

اس واقعے کی تحقیق کرتے ہوئے تمام روایات کے مصادر میں تلاش کیا گیا لیکن کسی بھی مستند یا ضعیف مصدر میں اس واقعے کے متعلق کوئی حوالہ نہیں مل سکا، البتہ بہت بعد کی کچھ کتابوں میں اس کے بارے میں بغیر سند کے کچھ حوالہ ملتا ہے،  لیکن وہ کتابیں بھی اس قدر مضبوط نہیں کہ ان کی بنیاد پر اس واقعے کو صحیح یا درست مانا جائے.

اس واقعے کی تحقیق:

١.  یہ واقعہ  اتلیدی نے اپنی کتاب  “نوادر الخلفاء”  (جو “إعلام الناس بما وقع للبرامکہ مع ابن عباس” کے نام سے مشہور ہے) میں اس واقعے کو ذکر کیا ہے.

٢. اسی طرح یہ واقعہ “مجانی الأدب فی حدائق العرب” (230/4) میں بھی مذکور ہے.

ان دونوں کتابوں کی اہمیت کسی عربی زبان کے ناول سے زیادہ نہیں کیونکہ یہ دونوں مصنفین صرف عربی لطائف اور عرب کے ایسے اخبار کو جمع کرتے تھے جس میں دلچسپی کا سامان ہو اس بات کی کوئ پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ درست ہے یا نہیں

ن القصة المذكورة لم ترد في مصدر موثوق، ولم أجدها بعد بحث طويل إلا في كتابين، الأول: إعلام الناس بما وقع للبرامكة مع بني العباس، لمحمد دياب الإتليدي (ت بعد 1100هـ ) وهو رجل مجهول لم يزد من ترجموا له على ذكر وفاته وأنه من القصّاص، وليس له سوى هذا الكتاب .
رابعا: وأما الإتليدي (؟ – بعد 1100 هـ، ؟- بعد 1689 م) :
فهو محمد دياب الإتليدي :
قصاص، من إقليم منية الخصيب بمصر، له كتاب :
(إعلام الناس بما وقع للبرامكة مع بني العباس).
ومثل هذا الكتاب مثل كتب جمع الطرف والأشياء الظريفة، ولكنه كله كتابات، ليس فيها من صحة التاريخ شيء، سوى شيئا واحدا، وهو أسماء الشخصيات التاريخية فحسب .
والكتاب الآخر: مجاني الأدب من حدائق العرب، للويس شيخو ( ت 1346هـ )، وهو رجل متّهم ظنين، ويكفي أنه بنى أكثر كتبه على أساس فاسد –
اس واقعے کے سند کی حالت:

١.   اتلیدی نے اس واقعے کو قاضی شرف الدین حسین بن ریان کے حوالے سے نقل کیا ہے جبکہ دونوں کے درمیان چار سو(٤٠٠) سال کا زمانہ حائل ہے.

 ٢.  قاضی شرف الدین نے اس واقعے کو صحابہ کے دور سے بغیر سند کے ذکر کیا ہے جبکہ ان کے اور صحابہ کرام کے درمیان سات سو(٧٠٠) سال کا زمانہ حائل ہے.

درمیان کے اس زمانے کی سند کا ذکر کہیں بھی موجود نہیں.

دث في عهد عمر بن الخطاب أن جاء ثلاثة ‏أشخاص ممسكين بشاب، وقالوا: ياأمير المؤمنين! ‏نريد منك أن تقتص لنا من هذا الرجل، فقد قتل ‏والدنا. قال عمر بن الخطاب: لماذا قتلته؟ قال الرجل: ‏إني راعى إبل، وأعز جمالي أكل شجرة من أرض ‏أبيهم، فضربه أبوهم بحجر فمات، فأمسكت نفس ‏الحجر وضربته به، فمات. قال عمر بن الخطاب: ‏إذا سأقيم عليك الحد. قال الرجل: أمهلني ثلاثة أيام ‏فقد مات أبي، وترك لي كنزاً أنا وأخي الصغير، فإذا ‏قتلتني ضاع الكنز، وضاع أخي من بعدي. فقال ‏عمر بن الخطاب: ومن يضمنك؟ فنظر الرجل في ‏وجوه الناس فقال: هذا الرجل. فقال عمر بن الخطاب: يا أباذر! هل تضمن هذا الرجل؟ فقال أبو ذر: نعم ياأمير المؤمنين. فقال عمر بن ‏الخطاب: إنك لا تعرفه، وإن هرب أقمت عليك ‏الحد. فقال أبو ذر: أنا أضمنه ياأمير المؤمنين. ‏ورحل الرجل، ومر اليوم الأول، والثاني، والثالث ‏وكل الناس كانوا قلقين على أبي ذر حتى لا يقام ‏عليه الحد. وقبل صلاة المغرب بقليل جاء الرجل ‏وهو يلهث، وقد اشتد عليه التعب والإرهاق ووقف ‏بين يدي أميرالمؤمنين عمر بن الخطاب قال ‏الرجل: لقد سلمت الكنز وأخي لأخواله، وأنا تحت ‏يدك لتقيم علي الحد. فاستغرب عمر بن الخطاب ‏وقال: ما الذي أرجعك؟ كان من الممكن أن تهرب. ‏فقال الرجل: خشيت أن يقال: لقد ذهب الوفاء ‏بالعهد من الناس. فسأل عمر بن الخطاب أباذر ‏لماذا ضمنته؟ فقال أبو ذر: خشيت أن يقال: لقد ‏ذهب الخير من الناس. فتأثر أولاد القتيل فقالوا: لقد ‏عفونا عنه. فقال عمر بن الخطاب: لماذا؟ فقالوا: نخشى أن يقال لقد ذهب العفو من الناس.
أرجو الرد -وجزاكم الله كل خير-.
الإجابة:
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:
فقراءة هذه القصة يغني عن البحث في صحتها، ففيها غرائب لا تليق بفقه الصحابة رضي الله عنهم. وعلى أية حال فقد بحثنا لها عن سند فلم نجد، ولم نطلع عليها إلا في كتب القصاص وأصحاب النوادر، فذكرها الإتليدي في بداية كتابه “نوادر الخلفاء) المشهور باسم: (إعلام الناس بما وقع للبرامكة مع بني العباس ص: 11). وذكرها لويس شيخو اليسوعي مؤسس مجلة المشرق في كتابه: “مجاني الأدب في حدائق العرب” (4/230)
– قال الإتليدي في كتابه: قال القاضي شرف الدين حسين بن ريان: وبينهما ٤٠٠ سنة.
قال القاضي شرف الدين حسين بن ريان: قال أغرب ما سمعته من الأخبار، وأعجب ما سمعته عن الأخيار…ثم ذكر القصة؛ وبينه وبين الصحابة ٧٠٠ سنة تقريبا، دون أن يذكر رجلا واحدا ممن روى عنه.
اس واقعے کی ایک اور جہت:

یہ واقعہ بعض کتابوں میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی نقل کیا گیا ہے.

دخل أعرابي بستانا ليستريح .. أناخ ناقته ثم نام قليلا .. قامت الناقة و أحدثت فسادا كبيرا في البستان .. جاء صاحب البستان فقتل الناقة، استيقظ الأعرابي وقتل صاحب البستان .. أقبل أولاد صاحب البستان وأمسكوا بالأعرابي للقصاص، طلب الأعرابي منهم أن يمهلوه حتى يرجع إلى أولاده فيوصي لهم ثم يعود، قالوا: ومن يضمن لنا أنك ستعود؟ وبينما هم كذلك مر بهم أبوهريرة رضي الله عنه وعلم أمرهم ثم قال: أنا أضمن الرجل .. ذهب الرجل إلى أهله بعد أن وعدهم بالعودة في يوم معلوم ..
وجاء اليوم الذي انتظروه .. وذهب أولاد القتيل إلى أبي هريرة فقالوا: كيف تضمن رجلا لا تعرفه ولا تعرف بلده؟ قال أبوهريرة: حتى لا يقال إن أهل المروءة قد ولوا .. وبينما هم كذلك إذ ظهر الرجل في الأفق وأقبل حتى وقف بينهم؛ قالوا: لماذا عدت وقد كان بإمكانك أن تنجو بنفسك؟ قال: حتى لا يقال إن أصحاب الوفاء قد ولوا .. عندها قال أولاد القتيل: ونحن قد عفونا عنك حتى لا يقال: إن أهل العفو قد ولوا.



خلاصہ کلام


اس واقعے کو تمام دستیاب مصادر میں تلاش کرنے کے بعد اس کے متعلق موجودہ زمانے کے باحثین (تلاش کرنے والے) علماء کی رائے کچھ اس طرح کی ہے:

شیخ خالد عبدالعليم متولی:

شیخ فرماتے ہیں کہ ہم نے باوجود تلاش کے اس واقعے کو کہیں نہیں پایا  اور یہ جس درجے کا واقعہ ہے تو لازم تھا کہ حدیث،  تاریخ یا حالات صحابہ میں ضرور موجود ہوتا.

قال عنها الشيخ خالد عبدالعليم متولي:
١-  وهذه القصة لم أقف عليها في أي كتاب، فلو أنها حدثت مع صحابي لذكرت في كتب الحديث أو كتب التاريخ والسير أو التراجم، فهذه القصة ليس لها أصل وهي مكذوبة قطعا مع ما فيها من النكارة الظاهرة.
٢-  فكيف يقيم عمرُ الحدّ على ابي ذر رضي الله عنهما دون جناية لكن بمجرد الكفالة!! فأين ذهب فقه الصحابة رضي الله عنهم؟ وهل يجوز شرعا أن ينوب أحد عن أحد في إقامة الحد؟
قبّح الله من وضعها!! ولم يستحي مَن وضعها بقوله [وكل الناس كانوا قلقین على أبي ذر حتى لا يقام عليه الحد]
وهذه القصة متداولة في المنتديات فلا يجوز ذكرها الا ببيان كذبها … والله أعلم وأحكم

ایک اور جگہ لکھا گیا کہ ‘اس واقعے کے الفاظ اس کے من گھڑت ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں’.

هذه القصة ليس لها أصل وهي مكذوبة قطعا.
مع ما فيها من النكارة الظاهرة فكيف يقيم عمرُ الحدّ على ابي ذر رضي الله عنهما دون جناية.
لكن بمجرد الكفالة!! فأين ذهب فقه الصحابة رضي الله عنهم.
قبّح الله من وضعها!!
ولم يستحي مَن وضعها بقوله: =وكل الناس كانوا قلقین على أبي ذر حتى لا يقام عليه الحد=
وهذه القصة متداولة في المنتديات؛ فلا يجوز ذكرها الا ببيان كذبها.

یہ واقعہ ثابت نہیں، لہذا اس کا بیان کرنا اور پھیلانا کسی طرح بھی درست نہیں.



واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں