حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھنا
سوال :محترم جناب مفتی صاحب! اس روایت کا حکم اور درجہ بیان فرمائیں:
في تاريخ دمشق للإمام العالم أبي القاسم الشافعي في الجزء الثاني والأربعين قال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم: “مثل علي فيكم (أو قال في هذه الأمة) كمثل الكعبة المستورة النظر إليها عبادة، والحج إليها فريضة”. وقال: “ذكر علي عبادة”.
تاريخ دمشق میں یہ روایت ہے کہ حضرت علی کی مثال تمہارے درمیان ایسی ہے جیسے کعبے کی مثال ہے، اس کو دیکھنا عبادت اور اس کی طرف جانا فرض ہے. اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرنا عبادت ہےکیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
یہ روایت اگرچہ تاریخ دمشق میں مذکور ہے لیکن اس روایت پر کسی محدث نے صحت کا حکم نہیں لگایا، البتہ اس مضمون کے قریب کی تمام روایات کو محدثین نے موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔
روایت کا حکم:
“النظر إلى وجه علي عبادة” “حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھنا عبادت ہے”.
اس روایت کو اگرچہ بہت سے محدثین نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے، لیکن اس روایت پر اکابر محدثین مثلا: امام ذہبی، ابن حجر، سیوطی اور ابن جوزی رحمہم اللہ نے ” من گھڑت “ہونے کا حکم لگایا ہے.
اس روایت کو ذکر کرنے والے:
١۔ اس روایت کی سب سے معتبر کتاب مستدرک حاکم ہے. امام حاکم نے اس روایت کو اپنی کتاب المستدرک علی الصحيحين جلد٣ میں ذکر کیا ہے اور فرمایا” :النظر إلى وجه على عبادة “هذا حديث صحيح الاسناد.
٢۔ امام طبرانی نے “المعجم الکبیر” میں اس روایت کو ذکر کیا ہے۔
٣۔ ابن شاہین نے “شرح مذاہب اہل السنة” میں ذکر کیا ہے۔
٤۔ اصبہانی نے “حلیة الأولياء وطبقات الاصفیاء” میں ذکر کیا ہے۔
یہ روایت ان کتابوں میں تقریباً کل گیارہ مقامات پر ذکر کی گئی ہے۔
اس روایت پر محدثین کے اقوال:
١۔ اس روایت کو اگرچہ امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے، لیکن امام ذہبی نے ان روایات کو ” من گھڑت “قرار دیا ہے۔
ذکره الحاكم من طريقين وصححهما، وتعقبه الذهبي بأن كلا الروايتين موضوعة. (مختصر استدراك الذهبي(
٢۔ امام سیوطی نے “اللآلی المصنوعہ” میں اور ابن جوزی نے “موضوعات” میں اس روایت کو “موضوع” کہا ہے۔
وحکم عليها السيوطي فی “اللآلی المصنوعة” وابن الجوزي فی “الموضوعات” بالوضع.
٣۔ اس روایت پر ابن جوزی رحمه الله نے وضع کا حکم لگایا ہے اور فرمایا کہ اس روایت کی کوئی سند درست نہیں۔
وقد حكم ابن الجوزي عليه بالوضع.
وقد ذكر ابن الجوزي رحمه الله هذا الحديث في كتابه “الموضوعات” وقال: لا يصح من جميع طرقه. (الموضوعات: 2/126(
٤۔ امام ذہبی رحمه اللہ نے بھی اس پر وضع کا حکم لگایا ہے۔
وحكم عليه الإمام الذهبي بالوضع والبطلان في أكثر من موضع في كتبه، منها في “ميزان الاعتدال” (3/236(
٥۔ امام شوکانی نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔
وذكره الشوكاني في “الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة” (ص:359(
ان روایات کے ضعف کے اسباب:
١۔ ان روایات میں محمد بن اسماعیل الرازی ہے جس پر امام ذہبی نے حکم لگایا کہ یہ راوی باطل خبر بیان کرتا ہے۔
٢۔ دوسرا راوی مطر بن مطر بن ميمون ہے جس کے بارے میں امام بخاری، أبوحاتم اور امام نسائی نے کہا کہ یہ منکر الحدیث ہے۔
وأسباب التضعيف:
١۔ محمد بن إسماعيل الرازي:
قال الذهبي في ميزان الاعتدال: أتى بخبر باطل.
٢۔ مطر بن مطر بن ميمون:
قال البخاري وأبوحاتم والنسائي: منكر الحديث. (ميزان الاعتدال(
خلاصہ کلام
یہ روایت اپنے تمام طرق سے موضوع اور من گھڑت ہے، لہذا اس کو بیان کرنا اور آگے پھیلانا بلکل درست نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ