تنبیہ نمبر77

لولاك لما خلقت الافلاك

الجواب باسمه تعالی

حدیث:  “لولاك لما خلقت الافلاك “یعنی اے محبوب!  اگر آپ نہ ہوتے تو ہم ساری کائنات نہ بناتے۔ یہ روایت مختصر اور طویل دونوں طرح سے کتب روایات میں موجود ہے۔

اس روایت کے مختصر طرق:

ملا علی قاری صاحب رحمه اللہ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔

١۔  لوْلاكَ لما خلقتُ الأفلاكَ.
المحدث:  ملا علي قاري.
المصدر:  الأسرار المرفوعة.
الصفحة أو الرقم: 288.
– خلاصة حكم المحدث:  قيل لا أصل له أو بأصله موضوع.
٢۔  لولاكَ لما خلقتُ الأفلاكَ.
المحدث: الألباني.
المصدر: السلسلة الضعيفة.
الصفحة أو الرقم: 282.
خلاصة حكم المحدث: موضوع.
٣۔  لولاكَ لولاكَ ما خُلِقَتِ الأفْلاكُ.
المحدث:  العجلوني.
المصدر:  كشف الخفاء.
– الصفحة أو الرقم:  2/214.
– خلاصة حكم المحدث:  سنده صحيح وإن لم يكن حديثا.
٤۔  لولاك لولاك ما خلقتُ الأفلاكَ.
المحدث:  القاوقجي.
المصدر:  اللؤلؤ المرصوع.
الصفحة أو الرقم:  154.
خلاصة حكم المحدث:  لم يرد بهذا اللفظ.
اس روایت کا طویل تذکرہ:

اس روایت کو امام حاکم رحمه الله نے نقل کیا ہے کہ جب آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی تو انہوں نے حضور علیہ السلام کے واسطے سے مغفرت کی دعا مانگی،  اللہ رب العزت نے فرمایا کہ آپ کو محمد کا کیسے پتہ چلا؟  عرض کیا کہ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تو میں نے عرش کے پائے پر آپ کے نام کے ساتھ محمد کا نام لکھا ہوا دیکھا تھا تو میں سمجھ گیا کہ یہ آپ کی محبوب مخلوق ہے،  اسلئے میں نے ان کے واسطے سے دعا مانگی.

اللہ رب العزت نے فرمایا کہ تو نے سچ کہا کہ وہ واقعی میرا محبوب ہے اور میں نے ان کے وسیلے تم کو معاف کیا اور اگر میں محمد کو نہ بناتا تو کسی چیز کو بھی نہ بناتا.

هذا الحديث رواه الحاكم من طريق عبدالله بن مسلم الفهري. حدثنا اسماعيل بن مسلمة عن عبدالرحمن بن زيد بن اسلم عن ابيه عن جده عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال:  قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  لما اقترف آدم الخطيئة قال يارب!  اسألك بحق محمد لما غفرت لي،  فقال الله:  ياآدم!  وكيف عرفت محمدا ولم اخلقه قال:  يارب!  لانك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا اله الا الله محمد رسول الله،  فعلمت أنك لم تضف الى اسمك الا أحب الخلق اليك،  فقال الله:  صدقت ياآدم!  انه لأحب الخلق الي؛  ادعني بحقه فقد غفرت لك،  ولولا محمد ما خلقتك.
قال الحاكم:  هذا حديث صحيح الاسناد.

اس روایت کو علماء نے باطل اور موضوع قرار دیا ہے.

وقد تعقبه جمع من العلماء وانكروا عليه تصحيحه لهذا الحديث وحكموا على هذا الحديث انه باطل موضوع وبينوا ان الحاكم نفسه قد تناقض في هذا الحديث.

 ● امام ذہبی رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے،  عبدالرحمن کا کوئی اعتبار نہیں اور عبداللہ بن مسلم الفہری مجہول ہے،  اور میزان الإعتدال میں فرمایا کہ یہ خبر باطل ہے.

قال الذهبي: بل موضوع. وعبدالرحمان واه وعبدالله بن مسلم الفهري لا ادري من هو.
وقال الذهبي ايضا في “ميزان الاعتدال”: خبر باطل، واقره الحافظ ابن حجر في “لسان الميزان”.

 ● امام بيهقی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور ابن کثیر نے ان سے اتفاق کیا.

وقال البيهقي: تفرد به عبدالرحمن بن زيد بن اسلم من هذا الوجه وهوضعيف. واقره ابن كثير في “البداية والنهاية”.

ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حاکم نے خود اپنی کتاب “المدخل” میں عبدالرحمن کو من گھڑت روایات نقل کرنے والا قرار دیا تھا.

وقال شيخ الاسلام ابن تيمية في القاعدة الجليلة في التوسل والوسيلة (ص: 69) ورواية الحاكم لهذا الحديث مما انكر عليه فانه نفسه قد قال في كتاب “المدخل الى معرفة الصحيح من السقيم”: عبدالرحمن بن زيد بن اسلم روى عن ابيه احاديث موضوعة لا یخفى على من تاملها من اهل الصنعة. وعبدالرحمن ابن زيد بن اسلم ضعيف باتفاقهم يلغط كثيرا.
اس روایت کے دیگر مآخذ:
أخرجه الحاكم في “المستدرك” (2/615) وعنه ابن عساكر (2/323/2(
وكذا البيهقي في باب ما جاء فيما تحدث به صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه من “دلائل النبوة” (5/488) من طريق أبي الحارث عبدالله بن مسلم الفهري، حدثنا إسماعيل ابن مسلمة، نبأنا عبدالرحمن بن زيد بن أسلم عن أبيه عن جده عن عمر بن الخطاب مرفوعا، وقال الحاكم: صحيح الإسناد، وهو أول حديث ذكرته لعبدالرحمن بن زيد بن أسلم في هذا الكتاب.
فتعقبه الذهبي بقوله: بل موضوع، وعبدالرحمن واه، وعبدالله بن مسلم الفهري لا أدري من هو.
قلت:  والفهري هذا أورده في “ميزان الاعتدال” لهذا الحديث وقال: خبر باطل.
رواه البيهقي في “دلائل النبوة” وقال البيهقي: تفرد به عبدالرحمن بن زيد ابن أسلم وهو ضعيف.
وأقره ابن كثير في “تاريخه” (2/323) ووافقه الحافظ ابن حجر في “اللسان” أصله “الميزان” على قوله: خبر باطل وزاد عليه قوله: في هذا 
الفهري: لا أستبعد أن يكون هو الذي قبله فإنه من طبقته. 
قلت: والذي قبله هو عبدالله بن مسلم بن رشيد، ذكره ابن حبان فقال: متهم بوضع الحديث، يضع على ليث ومالك وابن لهيعة لا يحل كتب حديثه، وهو الذي روى عن ابن هدبة نسخة كأنها معمولة.
والحديث أخرجه الطبراني في “المعجم الصغير” (207) من طريق أخرى عن عبدالرحمن بن زيد ثم قال: لا يروي عن عمر إلا بهذا الإسناد.
وقال الهيثمي في “المجمع” (8/253): رواه الطبراني في “الأوسط” و”الصغير” وفيه من لم أعرفهم . 

ان تمام طرق اور کتب کے خلاصے کے بعد اس روایت پر امام ذہبی اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے وضع اور خبر باطل کا حکم لگایا ہے اور اس کی بنیادی وجہ عبدالرحمن بن زید اور الفہری اور عبداللہ بن مسلم بن رشید ہیں.

کیا اس روایت کا معنی صحیح ہے:

اس بات پر تو تقریبا اتفاق ہے کہ اس روایت کے الفاظ من گھڑت ہیں لیکن کیا معنی کے لحاظ سے یہ روایت درست ہے اور ایسا کہنا کہ دنیا آپ علیہ السلام کی وجہ سے وجود میں آئی ہے درست ہے؟

نجم الفتاوی اور فتاوی حقانیہ نے اس قول کی تائید کی ہے:

مذکورہ حدیث الفاظ کے اعتبار سے موضوع ہے لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہے۔

کما ھو مصرح فی “الموضوعات الکبیر” (صـ۱۰۱): لولاك لما خلقت الافلاك. قال الصنعانی انه موضوع. کذا فی الخلاصة، لکن معناہ صحیح، فقد روی الدیلمی عن ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنھما مرفوعا: اتانی جبریل فقال: یامحمد! لولاك ما خلقت الجنة ولولاك ما خلقت النار.
– وفی روایة ابن عساکر: لولاك ماخلقت الدنیا۔ (نجم الفتاوی(
حدیث:
“لولاك لما خلقت الافلاك”. قال الصغاتی؛ انه موضوع. کذا فی الخلاصة لٰکن معناہ صحیح فقد روی الدیلمیؒ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما مرفوعًا: اتانی جبریل فقال: یامحمد! لولاك ما خلقت الجنّة ولولاك ما خلقت النار، وفی روایة ابن عساکر: لولاک ما خلقت الدنیا۔ (موضوعاتِ کبیر: ص؍۵۹، حرف اللام(
قال العلامة شهاب الدین قسطلانیؒ: قال اللّٰہ تبارك وتعالٰی لآدم: یاآدم یا ابا محمدﷺ! ارفع رأسك فرفع رأسه فرأی نور محمد فی سرادق العرش فقال: یارب!ّ ما ھٰذا النور؟ قال: ھٰذا نور نبیٌّ مِّنْ ذُرّیتك؛ اسمُهٗ فی السّمآء احمد وفی الارض محمّد لولاہ ما خلقتك ولا خلقت سماء ولا ارضًا۔ (المواھب اللدنیة: ج؍۱، ص؍۸۳( 
وروی فی حدیث طویل عن سلمان رضی اللّٰہ عنه ولقد خلقت الدُّنیا واھلها لأعرفهم کرامتك ومنزلتك عندی ولولاك ما خلقت الدُّنیا۔ (فتاویٰ حقانیه :ج؍۲،ص:۲۰۳(

مظاہر العلوم کے شیخ الحدیث مولانا یونس جونپوری صاحب رحمه اللہ کی رائے:

 حضرت شیخ الحدیث مولانا یونس صاحب اپنی کتاب میں ان روایات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ یہ روایت محدثانہ حیثیت سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی،  مگر ملا علی قاری رحمه اللہ کے سامنے چونکہ ان روایات کی اسانید نہیں ہیں اس لئے انہوں نے حسن ظن کرتے ہوئے حدیث مشہور کی صحت کا دعوٰی کردیا،  اور جن حضرات نے بھی صحت کا دعوٰی کیا ہے ان کو بھی یہی صورت پیش آئی ہے،  یا پھر انہوں نے ملا علی قاری رحمه اللہ پر اعتماد کیا ہے) .اللآلی المنثورة: 458” (

حضرت شیخ جونپوری صاحب فرماتے ہیں کہ ملا علی قاری صاحب نے اس روایت کے مضمون کی صحت کا دعوی کیا ہے لیکن اس مضمون پر ایسی کوئی روایت وارد نہیں جو اس مضمون کو صحیح قرار دے،  بلکہ جتنی روایات ہیں وہ سب باطل اور بےاصل ہیں.

فقہ حنفی کی دو مشہور کتابیں:
“البحر الرائق” میں ابن نجیم لکھتے ہیں :ﻻ (یکفر) ﺑﻘﻮﻟﻪ: ﻟﻮﻻ ﻧﺒﻴﻨﺎ ﻟﻢ ﻳﺨﻠﻖ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ ﻭﻫﻮ ﺧﻄﺄ.

یعنی اگر کوئی یوں کہے کہ  “اگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو آدم علیہ السلام پیدا نہ ہوتے”  تو وہ کافر نہیں ہوگا،  لیکن ایسا کہنا غلط ہے.  (البحر الرائق: 121/5(

 ☆علامہ شامی فرماتے ہیں کہ اس کلام سے احتراز کرنا چاہیئے کہ اگر ہمارے نبی نہ ہوتے تو دنیا نہ ہوتی.

اس کے حاشیہ  (منحة الخالق)  میں علامہ شامی رحمه اللہ رقمطراز ہیں:

ﻗﺎﻝ ﻓﻲ التاتاﺭﺧﺎﻧﻴﺔ ﻭﻓﻲ ﺟﻮاﻫﺮ اﻟﻔﺘﺎﻭﻯ: ﻫﻞ ﻳﺠﻮﺯ ﺃﻥ ﻳﻘﺎﻝ “ﻟﻮﻻ ﻧﺒﻴﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻤﺎ ﺧﻠﻖ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﺁﺩﻡ” ﻗﺎﻝ: ﻫﺬا ﺷﻲء ﻳﺬﻛﺮﻩ اﻟﻮﻋﺎﻅ ﻋﻠﻰ ﺭؤﻭﺱ اﻟﻤﻨﺎﺑﺮ ﻳﺮﻳﺪﻭﻥ ﺑﻪ ﺗﻌﻈﻴﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺴﻼﻡ، ﻭاﻷﻭﻟﻰ ﺃﻥ ﻳﺤﺘﺮﺯﻭا ﻋﻦ ﺃﻣﺜﺎﻝ ﻫﺬا ﻓﺈﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺴﻼﻡ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻋﻈﻴﻢ اﻟﻤﻨﺰﻟﺔ ﻭاﻟﻤﺮﺗﺒﺔ ﻋﻨﺪ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ، ﻛﺎﻥ ﻟﻜﻞ ﻧﺒﻲ ﻣﻦ اﻷﻧﺒﻴﺎء ﻋﻠﻴﻬﻢ اﻟﺴﻼﻡ ﻣﻨﺰﻟﺔ ﻭﻣﺮﺗﺒﺔ ﻭﺧﺎﺻﻴﺘﻪ ﻟﻴﺴﺖ ﻟﻐﻴﺮﻩ ﻓﻴﻜﻮﻥ ﻛﻞ ﻧﺒﻲ ﺃﺻﻼ ﺑﻨﻔﺴﻪ.



خلاصہ کلام


یہ بات تو بالاتفاق واضح ہوگئی کہ یہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں بلکہ یہ من گھڑت روایات میں سے ہے، البتہ ہماری بعض کتابوں میں اس روایت کے معنی کو درست قرار دیا گیا ہے. لیکن شیخ یونس جونپوری صاحب کے قول کے مطابق ایسی کوئی بات روایات سے ثابت نہیں،  لہذا اس مضمون کو کسی روایت کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں.



واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں