اہل جنت کا قرآن سننا
سوال: مختلف بیانات میں یہ بات سنی ہے کہ جنت میں حضرت داؤد علیہ السلام زبور اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورة یس اور اللہ رب العزت سورۃ رحمٰن سنائینگے. اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور تمام امور کا بالترتيب جواب دیا جائےگا
جنت میں انبیائے کرام علیہم السلام کا قرآن پڑھنا
اس مضمون کے متعلق کوئی بھی روایت کسی مستند یا ضعیف سند سے موجود نہیں، البتہ جہاں ان روایات کو ذکر کیا گیا ہے وہ اس قدر کمزور ذرائع سے منقول ہیں کہ ان پر اعتماد ممکن نہیں، لہذا روایات کی تحقیق کرنے والے ایک مستند ادارے سے جب اس روایت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گذری
السؤال:
ان في الجنة يقول الله لداود عليه السلام أن يقرأ من الزبور فهو يقرأ والمؤمنون يتعجبون من صوته، بعد ذلك يأمر الرسول صلى الله عليه وسلم أن يقرأ من القرآن فيقرأ سورة الرحمن فيكون صوته أجمل من صوت داود عليه السلام، بعد ذلك يقرأ الله سبحانه وتعالى سورة يس فالمؤمنون يغشى عليهم لفترة، فالذي يسمع أغاني يحرم من سماع صوت الله سبحانه وتعالى. هل هذا الكلام صحيح؟ أول مرة نسمعه
الإجابــة:
الحمدلله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:
فهذا الخبر على هذا النحو لم نطلع عليه في شيء من كتب الحديث.
جنت میں اللہ تعالٰی کا قرآن سنانا:
اللہ رب العزت کے اپنے بندوں کو قرآن مجید سنانے کے بارے میں منقول روایات مندرجہ ذیل ہیں
: روایت نمبر ١ .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت سب لوگوں کے سامنے قرآن مجید پڑھینگے اور لوگوں کو ایسا لگےگا کہ گویا انہوں نے اس سے پہلے کبھی قرآن سنا ہی نہیں، اور پھر مؤمنین کو وہ قرآن یاد رہ جائے گا اور منافقین بھول جائیں گے
قال الفضل الرازي في “فضائل القرآن” (ص:162) من طريق محمد بْن يونس الْقُرَشِيّ، نا عباد بْن واقد مولى بني هاشم، نا عبدالله بْن جراد، نا أشعث الحداني، عَن شهر بْن حوشب عن أَبِي هريرة، قال: قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إذا كَانَ يوم القيامة قرأ الله تبارك وَتَعَالَى القرآن عَلَى النَّاس كأنهم لم يسمعوه، فيحفظ المؤمنون وينساه المنافقون.
: اس روایت کی اسنادی حیثیت
: یہ سند بہت ہی زیادہ کمزور ہے کیونکہ اس کی سند میں تین راویوں پر کلام کیا گیا ہے
١. شہر بن حوشب: یہ راوی ضعیف ہے.
٢. عبداللہ بن جراد: یہ راوی مجہول ہے.
٣. محمد بن یونس القرشي: اس راوی پر من گھڑت روایات گھڑنے کا الزام ہے.
وهذا إسناد واه جدا، لان شهر بن حوشب ضعيف، وعبدالله بن جراد مجهول، ومحمد بن يونس القرشي هو الكديمي مشهور بالوضع، قال ابن حبان: لعله قد وضع أكثر من ألف حديث. (انظر: “ميزان الاعتدال” 4/74).
: روایت نمبر ٢ .
ابونعیم نے عبداللہ بن بریدہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اہل جنت روزانہ دو مرتبہ اللہ رب العزت کے دربار میں حاضر ہونگے اور ہر شخص اپنے اعمال کے بقدر موتی، یاقوت، سونے اور زمرد کے منبروں پر بیٹھےگا اور اللہ رب العزت قرآن کریم سنائیں گے، انہوں نے اس جیسی عمدہ اور اعلی چیز کبھی نہ سنی ہوگی لیکن ان کو قرار نہیں آئےگا، البتہ یہ لوگ کل کی امید پر خوشی خوشی اپنے گھروں کو لوٹیں گے کہ کل پھر یہی کلام سننے کو ملےگا
ما رواه أبونعيم في “صفة الجنة” (270) من طريق الْمُسَيَّبِ بْنِ شَرِيكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْبَكْرِيِّ، عَنْ صَالِحِ بْنِ حَيَّانَ، ثنا عَبْدُاللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَدْخُلُونَ كُلَّ يَوْمٍ مَرَّتَيْنِ عَلَى الْجَبَّارِ تَعَالَى فَيَقْرَأُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، وَقَدْ جَلَسَ كُل امْرِئٍ مِنْهُمْ مَجْلِسَهُ عَلَى مَنَابِرِ الدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ، وَالزَّبَرْجَدِ، وَالذَّهَبِ وَالزُّمُرُّدِ كُلًّا بِأَعْمَالِهِمْ، فَلَمْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُمْ بِذَلِكَ، وَلَمْ يَسْمَعُوا شَيْئًا قَطُّ أَعْظَمَ، وَلَا أَحْسَنَ مِنْهُ، ثُمَّ يَنْصَرِفُونَ إِلَى رِحَالِهِمْ نَاعِمِينَ قَرِيرَةً أَعْيُنُهُمْ إِلَى مِثْلِهَا مِنَ الْغَد.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت سند کے لحاظ سے بہت ضعیف ہے، اس لئے کہ اس کے دو راوی بہت کمزور ہیں:
١. صالح بن حيان:
ابن عدی نے اس کی روایات کو غیر محفوظ قرار دیا.
امام بخاری، یحی بن معین اور امام نسائی نے اس کو غیر ثقہ قرار دیا ہے.
٢. المسیب بن شریك:
اس پر محدثین کا کلام کافی سخت ہے.
یحی بن معین نے اس کو “لیس بشئ” قرار دیا کہ یہ بےحیثیت ہے.
إمام احمد کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس کی روایات ترک کردیں.
امام مسلم کہتے ہیں کہ یہ متروک ہے.
سميه صالح بن حيان القرشي الكوفي أيضا فقد يشتبه بصالح بن حين وليس هو به. بل هذا يروي عن ابن بريدة وأبي وائل ونافع وسويد بن غفلة وعدة روى عنه علي بن مسهر وعبدة بن سليمان وطائفة وهو واه.
– قال ابن عدي: عامة ما يرويه غير محفوظ.
– وقال يحيى بن معين: ضعيف.
– وقال البخاري: فيه نظر.
– وقال النسائي: ليس بثقة.
7750- المُسَيَّب بن شريك أبوسعيد التميمي الشقري الكوفي.
عن الأعمش.
– قال يحيى: ليس بشيء.
– وقال أحمد: ترك الناس حديثه.
– وَقال البُخاري: سكتوا عنه.
– وقال مسلم وجماعة: متروك.
● روایت نمبر ٣:
سعید بن سعید الحارثي کہتے ہیں کہ مجھ سے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جنت میں سونے کے بانسوں کے جنگل ہیں، ان کے پھل موتی ہیں، جب اہل جنت کوئی حسین آواز سننا چاہیں گے تو اللہ جل شانہ ان جنگلات کی طرف سے ایک ہوا چلائیں گے، جس سے ان کے پاس ان کے من پسند ساز کی آوازیں آئیں گی… اور پھر ان کے لئے اس سے بھی عمدہ آواز ہوگی، جس کے مقابلے میں پچھلے تمام نغمے ہیچ ہوں گے… یہ اس وقت جب وہ اللہ تعالٰی کا کلام، اس کا خطاب اور سلام سنیں گے، اللہ تعالٰی ان کو اپنا کلام سنائیں گے، اسے سن کر انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ گویا پہلے کبھی انہوں نے کلام اللہ سنا ہی نہ تھا.
ذكره ابن القيم في حادي الأرواح: حدثنا ابراهيم بن سعيد حدثنا ابراهيم بن سعيد حدثنا علي بن عاصم حدثني سعيد بن سعيد الحارثي قال: حدثت ان في الجنة اجاما من قصب من ذهب حملها اللؤلؤ، فاذا اشتهى أهل الجنة يسمعوا صوتا حسنا بعث الله على تلك الاجام ريحا فتاتيهم بكل صوت يشتهونه ولهم سماع أعلى من هذا يضمحل دونه كل سماع وذلك حين يسمعون كلام الرب جل جلاله وخطابه وسلامه عليهم ومحاضرته لهم ويقرأ عليهم كلامه، فاذا سمعوه منه فكأنهم لم يسمعوه قبل ذلك.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند بھی کافی کمزور ہے.
علی بن عاصم:
اس راوی پر محدثین کا سخت کلام ہے.
شعبہ رحمه اللہ نے فرمایا کہ اس کی روایات نہ لکھی جائیں.
یزید بن ہارون فرماتے تھے کہ ہمارا تجربہ اس کے بارے میں جھوٹ کا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے.
یزید بن ہارون سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ اس کا حلقہ درس بڑا تھا لیکن یہ محدثین کے حلقوں میں نہیں بیٹھتا تھا، اس لئے اس کی روایات میں غلطیاں ہوتی تھیں، اور یہ لوگوں کو بہت حقیر سمجھتا تھا.
امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ علی بن عاصم کی روایات بیان مت کرو، البتہ یہ جھوٹا نہیں.
علي بن عاصم بن صهيب الواسطي، التيمي مولاهم (ت201هـ) وقد جاوز التسعين. (د ت ق) … يُعتبر به وليس بحجة.
قال البَرْذَعيّ في (سؤالاته لأبي زرعة 2/397): حدثني أحمد بن الفُرات، أنا أبوداود، قال: سمعت شعبة يقول: لا تكتبوا عنه.
– (وانظر العقيلي 3/246). وهذا إسناد صحيح.
وقال جعفر بن محمد، قال: حدثنا عثمان بن أبي شيبة، يقول: كنا عند يزيد بن هارون؛ أنا وأخي أبوبكر، فقال: يا أباخالد! ابن عاصم؛ إيش حاله عندك؟ قال: حسبكم ما زلنا نعرفه بالكذب.
– أخرجه العقيلي (3/246) وإسناده صحيح.
ومن ذلك قول علي بن شعيب أبوالحسن السمسار (253هـ): حضرت يزيد بن هارون وهم يسألونه… يحيى بن معين، وأحمد بن حنبل، فقالوا له: فعلي بن عاصم؟ قال: سمعت منه. قالوا له: كان يُغْمَز بشيء؟ أو يُتكلم فيه إذ ذاك بشيء؟ فقال: معاذالله! كانت حلقته بحيال حلقة هُشَيْم، ولكنه كان لا يجالسهم، وكتب ولم يجالس فوقع في كتبه الخطأ، وكان يَسْتَصْغِرُ الناس ويزدريهم.
– خرجها الخطيب في (تاريخ بغداد 11/499) بسند لا بأس به.
قال أبوداود: سمعت أحمد بن حنبل يقول: أنا لا أحدث عن علي بن عاصم، كان فيه لجاج، ولم يكن متهما.
خلاصہ کلام
یہ بات قرآن کریم سے واضح ہوتی ہے کہ اہل جنت کو انکی چاہت کے مطابق جنت میں تمام نعمتیں عطا کی جائیں گی..
يشمله قوله تعالى: {وَفِيهَامَاتَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَأَنْتُمْ فِيهَا خَالِدُون} [الزخرف:٧١]، وقوله تعالى: ﴿وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ﴾ [فصلت:٣١]
لہذا اگر اہل جنت قرآن مجید سننے کی چاہت کرینگے تو ان کی چاہت ضرور پوری کی جائےگی.
اسی طرح صاحب قرآن کا جنت میں قرآن پڑھنا بھی صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حافظ قرآن کو اس کے حفظ کے بقدر درجات دیئے جائیں گے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے:
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “يقال لصاحب القرآن إذا دخل الجنة اقرأ واصعد، فيقرأ ويصعد بكل آية درجة حتى يقرأ آخر شيء معه منه”.
فارتقاء صاحب القرآن (أی الحافظ له) في درجات الجنة بعد أن يدخلها إنما يكون على حسب ما يقرأه من آيات القرآن الكريم.
لیکن جنت میں انبیائے کرام علیہم السلام کا قرآن کریم یا کوئی اور کتاب پڑھنا کسی بھی قابل استدلال روایت سے ثابت نہیں.
اللہ رب العزت کا قرآن کریم پڑھنا اور مخلوق کا سننا جن روایات سے ثابت ہورہا ہے وہ روایات بھی اس قابل نہیں کہ ان کو دلیل بنایا جاسکے.
لہذا اس طرح کی کوئی بات آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا بلکل بھی درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
دوران سفر…. بمقام: تقتغول کرغیزستان
٥ جنوری ٢٠١٨