رمضان کی عجیب فضیلت
● سوال:
مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق مطلوب ہے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان برکت والا مہینہ آگیا، اس میں خیر وبرکت اور اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے، گناہ معاف ہوتے ہیں، اس میں دعاؤوں کو پسند کیا جاتا ہے، اور اللہ تعالی اعمال میں تمہارے جذبے کو دیکھتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہیں، پس اللہ کو اپنے خیر کا جذبہ دکھاؤ کیونکہ وہ شخص بہت بڑا محروم ہے جو اس مہینے میں بھی اللہ تعالی کی رحمت سے محروم رہ جائے.
کیا یہ روایت درست ہے؟
(سائل: حافظ دلاور، کوہاٹ)
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب میں موجود ہے، جیسے: طبرانی، ہیثمی اور بیھقی نے اس کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے.
أخرجه الطبراني في “مسند الشاميين” (2238)،
والشاشي في “مسنده” (1224)،
والحسن الخلال في “أماليه” (66)،
والبيهقي في “القضاء والقدر” (60)،
من طريق مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمًا، وَحَضَرَ رَمَضَانُ: “أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَكَةٍ، فِيهِ خَيْرٌ يَغْشَاكُمُ الله فَيُنْزِلُ الرَّحْمَةَ وَيَحُطُّ فِيهَا الْخَطَايَا، وَيُسْتَحَبُّ فِيهَا الدَّعْوَةُ، يَنْظُرُ الله إِلَى تَنَافُسِكُمْ وَيُبَاهِيكُمْ بِمَلَائِكَةٍ، فَأَرُوا الله مِنْ أَنْفُسَكُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ كُلَّ الشَّقِيِّ مَنْ حُرِمَ فِيهِ رَحْمَةَ الله”.
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت سند کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ہے محمد بن سعید المصلوب اس کے متعلق ائمہ محدثین کے اقوال بہت سخت ہیں.
اس روایت کو جب علامہ ہیثمی نے نقل کیا تو انہوں نے محمد بن ابی قیس کو مجہول قرار دیا.
¤ والحديث أورده الهيثمي في “مجمع الزوائد” (4783) وقال: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ، وَفِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي قَيْسٍ؛ وَلَمْ أَجِدْ مَنْ تَرْجَمَهُ.
لیکن حافظ ابن حجر نے وضاحت کی کہ یہ محمد بن سعید المصلوب ہی ہے.
○ قال الحافظ برهان الدين الناجي في “عجالة الإملاء” (2/822): وشيخنا الحافظ ابن حجر أفاد بخطه على حاشية نسخته بمجمع الهيثمي: أن محمداً المذكور هو المصلوب، وهو محمد بن سعيد بن حسان بن قيس الأسدي.
♤ محمد بن سعيد الشامی المصلوب:
اس راوی کے تقریبا ایک سو(١٠٠) نام ذکر کئے گئے ہیں، چونکہ یہ جھوٹا راوی تھا اس لئے خود کو سند میں چھپانے کیلئے یہ ساری کوشش ہوتی تھی.
ذكره الحافظ ابن حجر في “التهذيب” (3/572-573): محمد بن سعيد بن حسَّان بن قيس الأسديُّ المصلوب، ويقال: محمد بن سعيد بن عبدالعزيز، ويقال: ابن أبي عُتبة، ويقال: ابن أبي قيس، ويقال: ابن أبي حسَّان، ويقال: ابن الطَّبريُّ، ويقال غير ذلك في نسبه، أبوعبدالرحمن، ويقال: أبوعبدالله، ويقال: أبوقيس، الشَّامي الدِّمشقي، ويقال: الأزديُّ.
اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:
١. امام احمد کے بیٹے کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا راوی تھا، خلیفہ ابوجعفر منصور نے اس کو عقیدہ زندقہ کے جرم میں قتل کروایا.
◇ قال عبدالله بن أحمد، عن أبيه: قتله أبوجعفر المنصور في الزَّندقة، حديثه حديثٌ موضوع.
٢. امام أبوداود کہتے ہیں کہ امام أحمد کہتے تھے کہ یہ جان بوجھ کر جھوٹی روایات بناتا تھا.
◇ وقال أبوداود، عن أحمد: عمداً كان يضع.
٣. امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کی روایات چھوڑ دی گئیں.
◇ وقال البخاريُّ: تُرِكَ حديثه.
٤. خالد بن یزید کہتے ہیں کہ اس نے مجھ سے کہا کہ جب کوئی بات اچھی ہوتی ہے تو میں اس کیلئے سند بنانے کو برا نہیں سمجھتا.
◇ وقال دُحيم: سمعتُ خالد بن يزيد الأزرق يقول: سمعتُ محمد بن سعيد الأردنيُّ يقول: إذا كان الكلام حسناً لم أُبالِ أن أجعل له إسناداً.
٥. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ روایات گھڑتا تھا، لہذا اس کی روایت نقل کرنا درست نہیں.
◇ وقال ابن حِبَّان: كان يضع الحديث، لا يحلُّ ذكره إلاَّ على وجه القدح فيه.
٦. امام حاکم کہتے ہیں: اس بات میں کسی کا بھی اختلاف نہیں کہ یہ راوی ساقط الاعتبار ہے.
◇ وقال الحاكم: هو ساقطٌ لا خلاف بين أهل النَّقل فيه.
خلاصہ کلام
اس مضمون پر تو کچھ ضعیف روایات موجود ہیں لیکن سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے انتہائی کمزور، ناقابل بیان ہے، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرکے اسکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٢ مئی ۲۰۱۹ کراچی