یوسف علیہ السلام اور سزا
سوال: محترم مفتی صاحب!
مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک بیان میں فرمایا کہ یوسف علیہ السلام کو جیل میں لے جانے سے پہلے گدھے پر سوار کیا گیا اور ان کا منہ کالا کیا گیا… کیا یہ بات درست ہے؟ اس کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
اس سوال کے جواب میں کچھ امور کو سمجھنا ضروری ہے:
١. پہلی بات:
کیا یوسف علیہ السلام کو گدھے پر سوار کرکے ان کا منہ کالا کیا گیا تھا؟
اس واقعے کو جتنی تفاسیر میں نقل کیا گیا ان تمام تفاسیر میں یوسف علیہ السلام کو صرف گدھے پر سوار کرنے اور ڈھنڈورا پیٹنے کا ذکر ہے، کسی بھی تفسیر میں منہ کالا کرنے کا ذکر نہیں.
مفسرین لکھتے ہیں کہ جب عزیز مصر کو یوسف علیہ السلام کی بےگناہی کا یقین ہوگیا تو اس نے سوچا کہ یوسف علیہ السلام کو کچھ عرصے کیلئے جیل میں ڈال کر ان باتوں کے تذکروں کو ختم کیا جائے، اسلئے اس نے ان کو جیل میں ڈلوانے کا فیصلہ کیا اور ان کو گدھے پر سوار کرکے شہر میں پھرا کر جیل لے جایا گیا۔ بعض تفاسیر میں ڈھنڈورا پیٹنے کا ذکر ہے.
وظهر للعزیز وأھل مشورته من بعد ما رأوا علامات براءة یوسف من قد القمیص من دبر وشهادة الشاھد وتقطیع النساء ایدیهن وقلة صبرھن عن لقاء یوسف أن یسجنوہ کتمانا للقصة ألا تشیع فی العامة ولانقطاع ما شاع فی المدینة وللحیلولة بینه وبينها {ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّن بَعدِ مَا رأَوُا الْآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّه حَتَّى حِين} [یوسف: ٣٥]
فظهر لهم من الرأی بعد ما علموا براءة یوسف أن یسجنوہ إلی وقت لیکون ذلك أقلّ لکلام الناس فی تلك القضیة، وأخمد لأمرها ولیظهروا أنه راودھا عن نفسها، فسجن بسببها، فسجنوہ ظلمًا وعدوانًا وکان ھذا مما قدّر اللہ له، ومن جملة ما عصمه به فإنه أبعد له عن معاشرتهم ومخالطتهم.
{لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ} قَالَ الْكَلْبِيُّ: بَلَغَنَا أَنَّهَا قَالَتْ لِزَوْجِهَا: صَدَّقْتَهُ وَكَذَّبْتَنِي، وَفَضَحْتَنِي فِي الْمَدِينَةِ، فَأَنَا غَيْرُ سَاعِيَةٍ فِي رِضَاكَ إِنْ لَمْ تَسْجُنْ يُوسُفَ، وَتُسَمِّعْ بِهِ وَتَعْذُرْنِي؛ فَأَمَرَ بِيُوسُفَ يُحْمَلُ عَلَى حِمَارٍ، ثُمَّ ضُرِبَ بِالطَّبْلِ: هَذَا يُوسُفُ الْعِبْرَانِيُّ، أَرَادَ سَيِّدَتَهُ عَلَى نَفْسِهَا فَطَوَّفَ بِهِ أَسْوَاقَ مِصْرَ كُلَّهَا، ثُمَّ أُدْخِلَ السجْن. {سُورَة يُوسُف:36}
٢. دوسری بات:
کیا انبیاء علیہم السلام پر آنے والے ایسے احوال کو بیان کیا جانا چاہیئے؟
شیخ عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمه اللہ متوفی 1376ھ سورہ یوسف کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے سورہ یوسف کی ابتداء میں فرما دیا کہ ہم احسن القصص بیان کرنے لگے ہیں اور پھر تفصیل سے یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا، گویا اللہ تبارك وتعالی نے خود ہی قصہ مکمل فرمادیا.
اب کوئی شخص اسرائیلی روایتوں کے ذریعے یہ چاہتا ہے کہ گویا قرآنی قصے کو مکمل کرے. جبکہ ان اسرائیلیات کا حال یہ ہے کہ ان کا صحیح اور غلط ہونا معلوم نہیں، نہ کوئی سند نہ ہی کوئی راوی، بلکہ اکثر روایات جھوٹ پر مبنی ہیں، اور تفاسیر نے اس سورت کی ایسی بےشمار من گھڑت روایات کو نقل کیا ہے،
لہذا ان قصے کہانیوں کو ترک کرکے محض خدائے رب العزت کے بیان پر اکتفاء کرے.
وإليك كلاماً نفيساً ذكره الشيخ السعدي رحمه الله في تفسيره في بداية سورة يوسف، فقال رحمه الله: واعلم أن الله ذكر أنه يقص على رسوله أحسن القصص في هذا الكتاب، ثم ذكر هذه القصة وبسطها، وذكر ما جرى فيها، فعلم بذلك أنها قصة تامة كاملة حسنة، فمن أراد أن يكملها أو يحسنها بما يذكر في الإسرائيليات التي لا يعرف لها سند ولا ناقل وأغلبها كذب، فهو مستدرك على الله، ومكمل لشيء يزعم أنه ناقص، وحسبك بأمر ينتهي إلى هذا الحد قبحاً، فإن تضاعيف هذه السورة قد ملئت في كثير من التفاسير، من الأكاذيب والأمور الشنيعة المناقضة لما قصه الله تعالى بشيء كثير، فعلى العبد أن يفهم عن الله ما قصه، ويدع ما سوى ذلك مما ليس عن النبي صلى الله عليه وسلم ينقل.
● اسرائیلیات کی اقسام اور ان کا کتب تفسیر میں موجود ہونا:
اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں:
١. وہ اسرائیلیات جن کی تصدیق قرآن و حدیث سے ہوتی ہو.
ان اسرائیلیات کو قبول کیا جائےگا.
الأول: ما يوافق القرآن، فهذا نصدقه ونحدث به.
٢. وہ اسرائیلیات جن کی تکذیب قرآن و حدیث سے ہوتی ہو.
ان اسرائیلیات کو رد کیا جائےگا.
الثاني: ما يكذبه القرآن، فهذا يجب علينا تكذيبه.
٣. وہ اسرائیلیات جن کی قرآن و حدیث سے نہ تصدیق ہوتی ہو نہ تکذیب.
ایسی اسرائیلیات کو سچا یا جھوٹا کہے بغیر ان کو صرف بطور دلیل ذکر کیا جائےگا، حدیث میں ایسی ہی روایات کی اجازت ہے.
الثالث: أخبار لم يكذبها القرآن ولم يصدقها، فهذه نحدث بها على جهة الاستئناس بها، مع عدم تصديقها أو تكذيبها، بل نقول: آمنا بالذي أنزل إلينا وأنزل إليكم. ويدل على هذا قول النبي صلى الله عليه وسلم: وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج. (رواه البخاري وغيره).
اکثر مفسرین نے ایسی ہی روایات نقل کی ہیں، لیکن بعض مفسرین نے ایسی روایات بھی نقل کیں جس کی نسبت اللہ تبارك وتعالی اور اس کے انبیائےکرام کی طرف کرنا ان کی شان کے خلاف ہے.
ومن هذا المنطلق أورد كثير من المفسرين الإسرائيليات في كتبهم باعتبارها من القسم المأذون فيه، إلا أن بعضهم قد توسع في ذلك، فأدخل ما لا تليق نسبته إلى الله عزوجل أو إلى انبيائه. (مختصر ومزید مقدمہ ابن کثیر)
● اسرائیلیات کا تفاسیر پر اثر:
اسرائیلیات کا تفاسیر پر بہت برا اثر ہوا کہ من گھڑت قصے اور جھوٹی خبریں ان تفاسیر میں جمع ہوگئیں اور متاخرین مفسرین کو ان کا رد کرنا پڑ گیا.
وقد كان لهذه الإسرائيليات أثر سيء في التفسير، إذ أدخلت فيه كثيرا من القصص الخيالي المخترع، والأخبار المكذوبة، وهذا ما دفع العلماء لمقاومتها، وإخضاعها لمعابير نقد الرواية، وموازين الشريعة لتمييز المقبول من المردود.
● اسرائیلیات کو کتب میں جگہ کیسے ملی؟
علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ اسرائیلی روایات سے متقدمین کی کتابیں بھری پڑی ہیں لیکن یہ روایات صحیح غلط ہر طرح کے امور پر مشتمل ہیں، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ عرب پڑھے لکھے لوگ نہ تھے، لہذا جب ان کو امور سابقہ کے بارے میں کسی بات کا پوچھنا ہوتا تو یہ لوگ یہود اور نصاری میں سے مسلمان ہونے والے لوگوں سے پوچھ لیتے تھے.
أورد ابن خلدون في مقدمته أسباب الاستكثار من المرويات الإسرائيلية فقال: وقد جمع المتقدمون في ذلك يعني التفسير النقلي وأوعوا، إلا أن كتبهم ومنقولاتهم تشتمل على الغث والسمين، والمقبول والمردود؛ والسبب في ذلك أن العرب لم يكونوا أهل كتاب ولا علم، وإنما غلبت عليهم البداوة والأمية، وإذا تشوقوا إلى معرفة شيء مما تتشوق إليه النفوس البشرية في أسباب المكونات، وبدء الخليقة، وأسرار الوجود، فإنما يسألون عنها أهل الكتاب قبلهم، ويستفيدونه منهم، وهم أهل التوراة من اليهود ومن تبع دينهم من النصارى.
انبیاء علیہم السلام پر آنے والے احوال کی حکمت:
علامہ ابن القیم کہتے ہیں کہ انبیائےکرام پر آنے والے مصائب کا سبب ان کو درجات کمال تک پہنچانا اور بعد میں آنے والی امتوں کو تسلی دینا ہے کہ جب انبیائےکرام پر مصائب آئے ہیں تو ان پر بھی آسکتے ہیں.
قال ابن القيم في “بدائع الفوائد” (2/452): فإنه سبحانه كما يحمي الأنبياء ويصونهم ويحفظهم ويتولاهم فيبتليهم بما شاء من أذى الكفار لهم:
١- ليستوجبوا كمال كرامته.
٢- وليتسلى بهم من بعدهم من أممهم وخلفائهم إذا أوذوا من الناس فرأوا ما جرى على الرسل والأنبياء صبروا ورضوا وتأسوا بهم.
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ یہ وہ راستہ ہے جس میں آدم علیہ السلام تھک گئے، نوح علیہ السلام رو پڑے، ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا، اسماعیل ذبح کیلئے لٹائے گئے، یوسف کو چند سِکُّوں کی خاطر بیچا گیا اور جیل میں ڈالا گیا.
قال ابن القيم في الفوائد (ص:42): الطريق طريقٌ تعِب فيه آدم، وناح لأجله نوح، ورُمي في النار الخليل، وأُضْجع للذبح إسماعيل، وبيع يوسف بثمن بخس ولبث في السجن بضع سنين، ونُشر بالمنشار زكريا، وذُبح السيد الحصور يحيى، وقاسى الضرَّ أيوب… وعالج الفقر وأنواع الأذى محمد صلى الله عليه وسلم.
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ انبیائےکرام پر زیادہ حالات کے آنے کی حکمت یہ ہے کہ وہ حضرات عظیم صبر، محاسبہ نفس سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ یہ جانتے ہیں کہ یہ مصائب خدائے پاک کی نعمتوں کی تکمیل کا ذریعہ ہیں اور اس پر راضی رہتے ہیں.
قال الإمام النووي رحمه الله: قال العلماء: والحكمة في كون الأنبياء أشد بلاء ثم الأمثل فالأمثل، أنهم مخصوصون بكمال الصبر، وصحة الاحتساب، ومعرفة أن ذلك نعمة من الله تعالى، ليتمّ لهم الخير ويضاعف لهم الأجر ويظهر صبرهم ورضاهم. (الشرح على صحيح مسلم:16/129)
خلاصہ کلام
حضرت یوسف علیہ السلام کے چہرے کو کالا کرنے والی بات باوجود تلاش بسیار کے ہمیں نہ مل سکی، اگر بالفرض یہ کسی تفسیر میں اسرائیلی روایات سے منقول بھی ہو تب بھی اس کو یوں مجمع میں بیان کرنا ہرگز درست نہیں کیونکہ اس سے ایک عظیم المرتبت نبی کی شان میں گستاخی لازم آتی ہے، جبکہ اللہ تبارك وتعالی اپنے انبیائےکرام پر مصائب اور حالات ان کو رسوا کرنے کیلئے نہیں لاتے تھے بلکہ انکو سرخرو کرنے کیلئے ان پر ایسے حالات بھیجے جاتے تھے.
ایسے واقعات کو بیان کرنا اور ان کی نسبت جلیل القدر انبیائےکرام کی طرف کرنا بلکل درست نہیں، لہذا اس سے احتراز کرنا بہت ضروری ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٥ جولائی ٢٠١٩ مکہ مکرمہ