● سوال:
آپ علیہ السلام کی وفات سے تین دن پہلے سے پیش آنے والے واقعات کے متعلق ایک واقعہ سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وصال سے تین دن پہلے جبکہ آپ علیہ السلام حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر تشریف فرما تھے، آپ علیہ السلام نے اپنی تمام ازواج مطہرات کو جمع کرکے ان سے اس بات کی اجازت لے لی کہ میں اپنی بیماری کے ایام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گذار لوں….. (پورا مفصل قصہ ہے)
اس پورے واقعے کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
● ١١. گیارھویں روایت:
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔
فرماتی ہیں: آخری چیز جو نبی کریم علیه الصلاة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک وتعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔
أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے فاطمہ! قریب آجاؤ۔ ” پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: “اے فاطمہ! قریب آؤ۔۔۔” دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی کا اظہار کیا تھا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کہنے لگیں کہ پہلی بار (جب میں قریب ہوئی تو) فرمایا: “فاطمہ! میں آج رات (اس دنیا سے) کوچ کرنے والا ہوں”۔ جس پر میں رو دی۔۔۔۔ جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے: “فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملوگی۔۔۔” جس پر میں خوش ہوگئی۔
وبينما هو هناك دخل عليه عبدالرحمن بن أبي بكر وفي يده سواك، فظل النبي ينظر الى السواك ولكنه لم يستطيع أن يطلبه من شدة مرضه. ففهمت السيدة عائشة من نظرة النبي، فأخذت السواك من عبدالرحمن ووضعته في فم النبي، فلم يستطع أن يستاك به، فأخذته من النبي وجعلت تلينه بفمها وردته للنبي مرة أخرى حتى يكون طرياً عليه. فقالت: كان آخر شيء دخل جوف النبي هو ريقي، فكان من فضل الله علي أن جمع بين ريقي وريق النبي قبل أن يموت. (صحيح) تقول السيده عائشة: ثم دخلت فاطمة بنت النبي، فلما دخلت بكت، لأن النبي لم يستطع القيام، لأنه كان يقبلها بين عينيها كلما جاءت إليه. فقال النبي: “أدنو مني يافاطمة” فحدثها النبي في أذنها، فبكت أكثر. فلما بكت قال لها النبي: “أدنو مني يافاطمة” فحدثها مرة أخری في اذنها، فضحكت….. بعد وفاته سئلت: ماذا قال لك النبي؟ فقالت: قال لي في المرة الأولى: “يافاطمة! إني ميت الليلة” فبكيت، فلما وجدني أبكي قال: “يافاطمة! أنت أول أهلي لحاقاً بي” فضحكت.
تحقیق:
یہ الفاظ تقریبا ثابت ہیں.
● ١٢. بارھویں روایت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باہر جانے کا حکم دے کر مجھے فرمایا: “عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے: مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں)
صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔
ثم قال النبي: “أخرجوا من عندي في البيت”. وقال: “ادنو مني يا عائشة”. فنام النبي على صدر زوجته، ويرفع يده للسماء ويقول: “بل الرفيق الأعلى، بل الرفيق الأعلى”. تقول السيدة عائشه: فعرفت أنه يخير…
تحقیق:
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ درست نہیں
البتہ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آپ علیہ السلام کا انتقال میرے گھر میں میرے باری پر میرے سینے اور میرے گردن کے درمیان ہوا
قالت عائشة : توفي النبي صلى الله عليه وسلم في بيتي وفي يومي وبين سحري ونحري
● ١٣. تیرھویں روایت:
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے: یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی. آپ علیه الصلاة والسلام نے فرمایا: “جبریل! اسے آنے دو۔”
ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا: السلام علیك یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئے بھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانه وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟ فرمایا: “مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔”
ودخل سيدنا جبريل على النبي وقال: يارسول الله! ملك الموت بالباب، يستأذن أن يدخل عليك، وما استأذن علي أحد من قبلك. فقال النبي: “ائذن له ياجبريل”. فدخل ملك الموت على النبي وقال: السلام عليك يارسول الله! أرسلني الله أخيرك، بين البقاء في الدنيا وبين أن تلحق بالله. فقال النبي: “بل الرفيق الأعلى، بل الرفيق الأعلى”.
¤ تخيير النبي صلى الله عليه وسلم حديث موضوع.
تحقیق:
حضرت جبریل علیہ السلام کا آنا اور ملک الموت کی اجازت والی تمام روایات انتہائی کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں.
● ١٤. چودھویں روایت:
ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: “اے پاکیزہ روح۔۔۔! اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔! الله کی رضا اور خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔ راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!”
ووقف ملك الموت عند رأس النبي وقال: أيتها الروح الطيبة! (روح محمد بن عبدالله) أُخرُجي إلى رضا من الله ورضوان، ورب راض غير غضبان.
تحقیق:
ایسی کوئی روایت ثابت نہیں.
● ١٥. پندرھویں روایت:
سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں: پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا: “رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!”
مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔
ادھر علی کرم الله وجهه جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے کہ پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔
ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔
اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے:
“خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کو گئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائےگا میں اسے قتل کر ڈالوں گا۔۔۔”
تقول السيدة عائشه: فسقطت يد النبي وثقلت رأسه على صدري فعرفت أنه قد مات، فلم أدر ما أفعل. فما كان مني غير أن خرجت من حجرتي وفتحت بابي الذي يطل علي الرجال في المسجد وأقول: مات رسول الله، مات رسول الله… تقول: فانفجر المسجد بالبكاء…
فهذا علي بن أبي طالب أقعد… وهذا عثمان بن عفان كالصبي يؤخذ بيده يمنى ويسرى…
وهذا عمر بن الخطاب يرفع سيفه ويقول: من قال أنه قد مات قطعت رأسه، إنه ذهب للقاء ربه كما ذهب موسي للقاء ربه وسيعود، ويقتل من قال أنه قد مات.
بعض الألفاظ السابقة شاذة ولا أصل لها، ولعل أغلبها ليس لها أصل ثابت.
تحقیق:
سوائے چند الفاظ کے باقی سب ثابت نہیں.
● ١٦. سولہویں روایت:
اس موقعے پر سب سے زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھ کر رو دیئے۔۔۔ کہہ رہے تھے: وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه (ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا: “یارسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔”
پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا، فرمایا کہ: “جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے وہ سن رکھے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا، اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ہمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔”
أما أثبت الناس فكان أبوبكر الصديق رضي الله عنه دخل علی النبي واحتضنه وقال: وا نبياه وا صفياه وا خليلاه!! وقَبَّل النبي في كل مرة.
– هذا جزء من حديث عند الإمام أحمد، قال عنه شعيب الأرنؤوط: إسناده حسن.
تحقیق:
یہ حصہ روایات سے ثابت ہے.
● ١٧. سترھویں روایت:
سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔ عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔
ويسقط السيف من يد عمر بن الخطاب، يقول: فعرفت أنه قد مات ويقول: فخرجت أجري أبحث عن مكان أجلس فيه وحدي لأبكي وحدي.
تحقیق:
ایسی کوئی روایت ثابت نہیں.
● ١٨. اٹھارویں روایت:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: “تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟”
پھر کہنے لگیں: يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه.
(ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں).
ودفن النبي صلى الله عليه وسلم والسيده فاطمة تقول: أ طابت أنفسكم أن تحثوا التراب علي وجه النبي؟ ووقفت تنعي النبي وتقول: يا أبتاه،أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه.
تحقیق:
یہ حصہ روایات سے ثابت ہے.
خلاصہ التحقیق
احادیث کی تحقیق کرنے والے ایک مستند ادارے سے جب اس روایت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس واقعے میں من گھڑت عبارات شامل کی گئی ہیں، لہذا یہ واقعہ اس طرح سے درست نہیں.
الدرجة: لا يصح بهذا التمام، وفيه عبارات موضوعة.
خلاصہ کلام
آپ علیہ السلام کے انتقال سے متعلق بہت سی من گھڑت باتیں اور روایات کتب میں موجود ہیں، اور موجودہ زمانے کے خطباء اور سوشل میڈیا نے ان واقعات کو مختلف رنگ دے کر عوام کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا ہے، جبکہ ان میں سے اکثر درست نہیں ہوتے، لہذا ایسے واقعات کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے.