مسجدِ خیف میں انبیاء کی قبریں
سوال
محترم مفتی صاحب!!
ہم نے یہ بات سنی تھی کہ مسجد خیف میں انبیائےکرام کی قبریں ہیں اور اسی طرح مسجد حرام میں بھی انبیائےکرام کی قبریں ہیں…
کیا یہ باتیں درست ہیں؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ آپ علیہ السلام کی قبر کے علاوہ دنیا میں کسی بھی نبی کی قبر کے بارے میں یقینی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ فلاں نبی کی قبر ہے، اگرچہ ابراہیم علیہ السلام کی قبر کے بارے میں بہت مشہور ہے کہ وہ الخلیل فلسطین میں واقع ہے.
یہی بات علامہ ابن تیمیہ نے نقل کی ہے.
□ وقال رحمه الله: قال طائفة من العلماء منهم عبدالعزيز الكناني: كل هذه القبور المضافة إلى الأنبياء لا يصح شيء منها إلا قبر النبي صلى الله عليه وسلم، وقد أثبت غيره أيضا قبر الخليل عليه السلام. (مجموع الفتاوى:27/446)
مسجدِ خیف میں انبیائےکرام علیہم السلام کی قبروں کے وجود اور عدمِ وجود کے بارے میں دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں:
١- پہلی رائے
مسجد خیف میں انبیاء کی قبریں موجود ہیں
روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ مسجد خیف میں انبیائےکرام کی قبریں موجود ہیں.
حدیث
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مسجد خیف میں ستر(٧٠) نبیوں کی قبریں ہیں
١.المعجم الكبير: حدثنا عبدان بن أحمد ثنا عيسى بن شاذان ثنا أبو همام الدلال ثنا إبراهيم بن طهمان عن منصور عن مجاهد عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في مسجد الخيف قبر سبعين نبيا.
٢.المطالب العالية: ابویعلی.
٣.المحدث: الهيثمي.
– المصدر: مجمع الزوائد.
– الصفحة أو الرقم: (3/300)
٤.ابن حجر العسقلاني.
– المصدر: مختصر البزار.
– الصفحة أو الرقم: (1/476)
اس روایت کی اسنادی حیثیت
اس روایت کی سند میں ایک راوی ہے *ابراہیم بن طہمان* جن پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے لیکن علامہ ابن حجر نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے.
*علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ بعض اوقات کمزور چیزیں نقل کرتے ہیں حالانکہ ابن طہمان ثقہ راوی ہے جب ان سے نقل کرنے والا ثقہ ہو اور یہ اپنے عقیدے ارجاء میں شدت پسند بھی نہیں تھے اور اسکی طرف داعی بھی نہیں تھے۔ امام حاکم کہتے ہیں کہ انہوں نے رجوع بھی کرلیا تھا.*
◇ وقال ابن حبان فى “الثقات”: قد روى أحاديث مستقيمة تشبه أحاديث الأثبات وقد تفرد عن الثقات بأشياء معضلات. (تهذيب التذيب)
قلت: الحق فيه أنه ثقة صحيح الحديث إذا روى عنه ثقة، ولم يثبت غلوه فى الإرجاء و لا كان داعية إليه بل ذكر الحاكم أنه رجع عنه. والله أعلم.
گویا مسجد خیف میں انبیاء کرام کی قبریں موجود ہیں یہ روایات درست ہیں
٢- دوسری رائے:
مسجد خیف میں انبیائےکرام کی قبریں موجود نہیں
علمائےکرام کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ مکہ مکرمہ میں تو انبیائےکرام کی قبریں موجود ہیں لیکن مسجد خیف میں نہیں.
١. ابن عباس کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مسجد خیف میں ستر(٧٠) نبیوں نے نماز پڑھی ہے
فعن محمد بن فضيلٍ، عن عطاء بن السائب، عن سعيد بن جبيرٍ، عن ابن عباسٍ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صلَّى في مسجد الخيف سبعون نبيًّا، منهم موسى، كأني أنظر إليه وعليه عباءتان قطوانيتان، وهو محرمٌ على بعيرٍ من إبل شنوءة، مخطومٍ بخطام ليفٍ له ضفران.
٢. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد خیف میں ستر(٧٠) نبیوں نے نماز پڑھی اور حراء پہاڑ اور ثبیر پہاڑ کے درمیان ستر(٧٠) نبیوں کی قبریں ہیں
□ ورُوِي نحوه عن أبي هريرة موقوفًا؛ فعن عبدالملك بن أبي سليمان، حدثني عطاء، عن أبي هريرة قال: صلى في مسجد الخيف سبعون نبيًّا، وبين حِرَاء وثَبِير سبعون نبيًّا.
کیا مسجد خیف میں آدم علیہ السلام کی قبر موجود ہے؟
اس بارے میں بعض روایات منقول ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی قبر مسجد خیف میں ہے۔
دارقطنی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضرت جبرئیل نے فرشتوں کے ساتھ آدم علیہ السلام کی نماز جنازہ پڑھی اور مسجد خیف میں ان کو دفن کیا گیا
□ أخرج الدارقطني في “سننه” عن ابن عباس وفيه: صلى جبريل بالملائكة على آدم ودفن في مسجد الخيف.
اس روایت کی اسنادی حیثیت
١. اس روایت میں عبدالرحمن بن مالک بن مغول متروک راوی ہے
◇ وهذا الأثر فيه عبدالرحمن بن مالك بن مغول، وهو متروك، كذا قال الدارقطني.
٢. اسی مضمون کی دوسری روایت ابن عساکر میں موجود ہے لیکن اس میں کلبی جھوٹا راوی ہے
◇ وجاء عند ابن عساكر وابن سعد كما في “الدر المنثور” (3/334)، إلا أن السند فيه الكلبي، وهو كذاب.
٣. تیسری روایت مجاہد سے منقول ہے لیکن اس کی سند میں بھی جھوٹے راوی ہیں
◇ وجاء عند أبي الشيخ عن مجاهد أيضاً، إلا أنه لم يصح إلى مجاهد؛ لأنه مسلسل بالكذابين.
گویا مسجد خیف میں آدم علیہ السلام کی قبر والی روایت درست نہیں
حضرت آدم کی قبر بیت المقدس میں
خالد بن معدان سے روایت منقول ہے کہ آدم علیہ السلام کی قبر بیت المقدس میں ہے.
□ وأخرج أبو الشيخ في “العظمة” عن خالد بن معدان أن آدم لما توفي حمله مائة وخمسون رجلا من الهند إلى بيت المقدس ودفنوه بها وجعلوا رأسه عند الصخرة.
وفيه مجاهيل، وأعظم من هذا أنه من الإسرائيليات.
یہ روایت بھی ثابت نہیں
مسجد حرام میں انبیائےکرام کی قبریں
١. پہلی روایت
حطیم سے لے کر رکن یمانی تک انبیائےکرام کی قبریں موجود ہیں، جب کسی نبی کی قوم ان کو تکلیف پہنچاتی تو وہ نبی مکہ جاتا اور انتقال تک وہیں عبادت کرتا.
□ أخرج الطبراني عن ابن عباس قال: أول من طاف بالبيت الملائكة، وإن ما بين الحجر إلى الركن اليماني لقبور من قبور الأنبياء، كان النبي منهم عليهم السلام، إذا آذاه قومه خرج من بين أظهرهم فعبد الله فيها حتى يموت.
٢. دوسری روایت
مقام ابراہیم سے لے کر حجر اسود اور زمزم کے کنویں سے حطیم تک ستتّر(٧٧) انبیائےکرام کی قبریں موجود ہیں جو حج کرنے آئے تھے اور یہیں انتقال کرگئے.
□ وأخرج الأزرقي والبيهقي من طريق عبدالرحمن بن سابط عن عبدالله بن ضمرة السلولي قال: ما بين المقام إلى الركن إلى بئر زمزم إلى الحجر قبر سبعة وسبعين نبيا، جاؤوا حاجين فماتوا فقبروا هنالك.
٣. تیسری روایت
جب کسی نبی کی قوم ہلاک ہوجاتی تو وہ نبی مکہ جاتا اور انتقال تک وہیں عبادت کرتا۔ مکہ میں نوح، هود، صالح، شعیب علیہم السلام کی قبریں زمزم اور حطیم کے درمیان ہیں.
□ وأخرج الجندي من طريق عطاء بن السائب عن محمد بن سابط عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “كان النبي من الأنبياء إذ هلكت أمته لحق بمكة فيتعبد فيها النبي ومن معه حتى يموت، فمات بها نوح وهود وصالح وشعيب عليهم السلام، وقبورهم بين زمزم والحجر”.
٤. چوتھی روایت
ابن عباس کہتے ہیں کہ مسجد حرام میں صرف دو نبیوں کی قبریں ہیں: اسماعیل اور شعیب علیہما السلام.. اور یہ حطیم میں حجر اسود کے سامنے.
□ ويروون عن ابن عباس أنه قال: في المسجد الحرام قبران ليس فيه غيرهما؛ قبر إسماعيل وشعيب في الحجر مقابل الركن الأسود.
یہ روایت درست نہیں
وهذا الأثر فيه محمد بن السائب الكلبي وهو كذاب.
٥. پانچویں روایت
ایک روایت یہ ہے کہ حضرت ہاجره اور اسماعیل علیہما السلام کی قبریں حطیم میں ہیں.
□ ولقد دفن سيدنا إسماعيل وأمه السيدة هاجر فى حجر اسماعيل.
نوٹ
یہ تمام روایات سند کے لحاظ سے اس قابل نہیں کہ ان کی بنیاد پر کوئی دعوی کیا جاسکے یا ان روایات کو صحیح کہا جاسکے.
خلاصہ کلام
مکہ مکرمہ میں انبیائےکرام علیہم السلام کی قبریں موجود ہیں لیکن متعین طور پر کسی جگہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا.
اسی طرح مسجدِ خیف میں انبیائےکرام کی قبریں موجود ہیں لیکن کسی مخصوص نبی کی قبر کا دعوی درست نہیں.
چونکہ یہ قبریں زمانہ گذرنے کی وجہ سے مٹ چکی تھیں، لہذا ان پر مسجد بنانا اور اس مسجد میں نماز پڑھنا بلا کراہت درست ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٦ اگست ٢٠١٩ مکہ مکرمہ