حضرت معاویہ اور خلافت
سوال
گذشتہ روز محمد علی مرزا کی ایک کلپ دیکھی جس میں وہ بتارہا تھا کہ حضرت معاویہ نے ایک مجلس میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ تم سے اور تمہارے باپ (عمر رضی اللہ عنہ) سے زیادہ ہم اس خلافت کے حقدار ہیں.
اسی طرح ایک صحابی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے کہا کہ معاویہ ہمیں لوگوں کو قتل کرنے اور مال لوٹنے کا حکم دیتا ہے. (مسلم شریف)
کیا یہ دونوں روایات درست ہیں؟ نیز اس کا مطلب بھی واضح فرما دیجئے؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ کسی بھی حدیث کی تشریح کیلئے محدثین کرام کی طرف رجوع کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس روایت کا کیا مفہوم بیان کیا ہے.
١. پہلی روایت
بخاری شریف کی روایت میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان تحکیم کا معاملہ ہونا تھا تو مجھے بھی بلایا گیا، میں مشورے کیلئے اپنی بہن حضرت حفصہ کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے شرکت کا مشورہ دیا، جب میں وہاں گیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے تقریر کی اور کہا کہ اس معاملے کے ہم ہر شخص سے زیادہ حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ حقدار ہیں.
ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں جواب دوں کہ اس معاملے کا حقدار وہ ہے جس نے تجھ سے اور تیرے باپ سے اسلام کیلئے لڑائی کی (یعنی حضرت علی)
□ أخرج البخاري في صحيحه عن ابن عمر قال: دخلت على حفصة قلت: قد كان من أمر الناس ما ترين فلم يجعل لي من الأمر شيء فقالت: اِلحَق فإنهم ينتظرونك وأخشى أن يكون احتباسك عنهم فرقة، فلم تدعه حتى ذهب، فلما تفرق الناس خطب معاوية قال: من كان يريد أن يتكلم في هذا الأمر فليطلع لنا قرنه، فلنحن احق به منه ومن أبيه.
قال حبيب ابن مسلمة: فهلا أجبته؟ قال عبدالله: فحللت حبوتي وهممت أن أقول: أحق بهذا منك من قاتلك وأباك على الإسلام فخشيت أن أقول كلمة تفرق بين الجمع وتسفك الدم ويحمل عني غير ذلك، فذكرت ما أعد الله في الجنان. قال حبيب: حفظت وعصمت.
وہ کونسا معاملہ ہے جس کے حقدار ہونے کا دعوی معاویہ رضی اللہ عنہ کررہے تھے؟ خلافت یا قصاصِ عثمان
علامہ عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں معاویہ کو برقرار رکھتا ہوں کیونکہ وہ حضرت عثمان کا ولی ہے، ان کے خون کا مطالبہ کرنے والا ہے اور اس معاملے (یعنی قصاص) کا زیادہ حقدار ہے… تو معاویہ نے تقریر کرکے کہا کہ جو اس قصاص کے معاملے میں ہم سے بحث کرنا چاہتے ہیں ہم اس میں ان سے زیادہ حقدار ہیں.
□ وَجَاء عَمْرو فَقَامَ مقَامه، فَحَمدَ الله وَأثْنى عَلَيْهِ، ثمَّ قَالَ: هَذَا قد قَالَ مَا سَمِعْتُمْ، وَأَنه قد خلع صَاحبه، وَإِنِّي قد خلعته كَمَا خلعه، وَأثبت صَاحِبي مُعَاوِيَة، فَإِنَّهُ ولي عُثْمَان بن عَفَّان والمطالب بدمه وَهُوَ أَحَق النَّاس، فَلَمَّا انْفَصل الْأَمر على هَذَا خطب مُعَاوِيَة….. إِلَخ. (عمدة القاري، شرح صحيح البخاري)
– فهنا واضح معنی قول معاوية: “فلَنَحْنُ أحَقُّ بِهِ مِنْهُ ومِنْ أبِيهِ” وهو: “فَإِنَّهُ ولي عُثْمَان بن عَفَّان والمطالب بدمه”.
علامہ جوینی کہتے ہیں
معاویہ رضی اللہ عنہ نے اگرچہ حضرت علی سے لڑائی کی لیکن انہوں نے کبھی بھی نہ ان کی خلافت کا انکار کیا اور نہ ہی کبھی اپنے لئے خلافت کا دعوی کیا، بس وہ تو حضرت عثمان کے قاتلوں کو چاہتے تھے اور یہی ان سے خطا ہوئی.
□ يقول إمام الحرمين الجويني في لمع الأدلة: إن معاوية وإن قاتل علياً فإنه لا ينكر إمامته ولا يدعيها لنفسه، وإنما كان يطلب قتلة عثمان ظناً منه أنه مصيب، وكان مخطئاً. (لمع الأدلة في عقائد أهل السنة للجويني، ص:115).
*شیعوں کی مشہور کتاب “نہج البلاغہ” میں حضرت علی کا قول منقول ہے کہ:* آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل شام کے درمیان اگرچہ جنگ ہوئی لیکن ہمارا رب ایک ہے، ہمارا دین ایک ہے، بس اختلاف تو صرف عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص پر ہے اور ہم اس کے خون کے الزام سے بری ہیں.
□ وَكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا وَالْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ وَنَبِيَّنَا وَاحِدٌ، وَدَعْوَتَنَا فِي الإسْلاَمِ وَاحِدَةٌ، وَلاَ نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الإيمَانِ بِاللهِ وَالتَّصْدِيقِ بِرَسُولِهِ، وَلاَ يَسْتَزِيدُونَنَا؛ والأَمْرُ وَاحِدٌ إِلاَّ مَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ مِنْ دَمِ عُثمانِ، وَنَحْنُ مِنْهُ بَرَاءَ! (نهج البلاغة)
*دو مشہور صحابہ ابودرداء اور ابوامامہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ* ہم معاویہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کررہے ہیں جبکہ ان کا اسلام مقدم، ان کا مرتبہ آپ سے بلند، اور وہ خلافت کے زیادہ حقدار ہیں… تو معاویہ رضی اللہ نے جواب دیا کہ ہماری لڑائی قصاص عثمان پر ہے کیونکہ قاتلین عثمان ان کے پاس ہیں، بس وہ ان سے بدلہ لے لیں پھر سب سے پہلے میں بیعت کرونگا.
□ ويورد ابن كثير في البداية والنهاية (7/360)، عن ابن ديزيل [هو إبراهيم بن الحسين بن علي الهمداني المعروف بابن ديزيل الإمام الحافظ (ت 281 ه) انظر: تاريخ دمشق (6/387) وسير أعلام النبلاء (13/184-192) ولسان الميزان لابن حجر (1/48)] بإسناد إلى أبي الدرداء وأبي أمامة رضي الله عنهما، أنهما دخلا على معاوية فقالا له: يا معاوية! علام تقاتل هذا الرجل؟ فوالله إنه أقدم منك ومن أبيك إسلاماً، وأقرب منك إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وأحق بهذا الأمر منك. فقال: أقاتله على دم عثمان، وأنه آوى قتلة عثمان، فاذهبا إليه فقولا: فليقدنا من قتلة عثمان ثم أنا أول من أبايعه من أهل الشام.
ابن حجر ہیتمی لکھتے ہیں
حضرت علی اور حضرت معاویہ کی جنگ خلافت کے معاملے پر نہیں تھی کیونکہ اس کے حقدار تو بالاتفاق حضرت علی ہی تھے، دراصل جنگ کی وجہ قصاص عثمان تھی.
□ ويقول ابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة (ص: 325): ومن اعتقاد أهل السنة والجماعة أن ما جرى بين معاوية وعلي رضي الله عنهما من الحرب، لم يكن لمنازعة معاوية لعلي في الخلافة للإجماع على أحقيتها لعلي… فلم تهج الفتنة بسببها، وإنما هاجت بسبب أن معاوية ومن معه طلبوا من علي تسليم قتلة عثمان إليهم لكون معاوية ابن عمه، فامتنع علي…
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں
حضرت معاویہ نے کبھی بھی حضرت علی کی زندگی میں نہ تو خلافت کا دعوی کیا اور نہ ہی اس پر لوگوں سے بیعت لی.
□ شيخ الإسلام فيقول: بأن معاوية لم يدّع الخلافة ولم يبايع له بها حتى قتل علي، فلم يقاتل على أنه خليفة، ولا أنه يستحقها، وكان يقر بذلك لمن يسأله. (مجموع الفتاوى:35/72)
خلاصہ تحقیق
حضرت معاویہ کا مقصود اس معاملے سے قصاص عثمان تھا نہ کہ خلافت، چہ جائیکہ وہ اپنے آپ کو حضرت عمر سے افضل قرار دیں.
٢. دوسری حدیث
یہ روایت واقعی مسلم شریف میں ہے لیکن پورا واقعہ شارح مسلم علامہ نووی نے کس طرح نقل کیا.
واقعہ حدیث
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص نے روایت نقل کی کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ایک خلیفہ مقرر ہوجائے اور دوسرا شخص آجائے جو خلافت کا دعوے دار ہو تو اس کی گردن مار دو.
□ قَوْلُهُ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ” مَعْنَاهُ: ادْفَعُوا الثَّانِيَ فَإِنَّهُ خَارِجٌ عَلَى الْإِمَامِ، فَإِنْ لَمْ يَنْدَفِعْ إِلَّا بِحَرْبٍ وَقِتَالٍ فَقَاتِلُوهُ فَإِنْ دَعَتِ الْمُقَاتَلَةُ إِلَى قَتْلِهِ جَازَ قَتْلُهُ وَلَا ضَمَانَ فِيهِ لِأَنَّهُ ظَالِمٌ مُتَعَدٍّ فِي قوله.
تو ایک شخص نے کہا کہ یہ معاویہ بھی تو ہمیں لوگوں کو قتل کرنے اور مال لوٹنے کا حکم دیتا ہے
□ فقلت له: هذا بن عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَالله تَعَالَى يَقُولُ: {وَلَا تَأكُلُوا أموَالَكُم بَينَكَم بِالبَاطِل…} إِلَى آخِرِهِ
شارح مسلم علامہ نووی لکھتے ہیں
یہ قائل اس روایت سے یہ سمجھا کہ جو حدیث آپ بیان کررہے ہیں یہ تمام صفات تو حضرت معاویہ میں بھی موجود ہیں کیونکہ وہ حضرت علی سے لڑ رہے ہیں اور وہ مال و اسباب جو وہ لوگ خرچ کررہے ہیں گویا باطل مال کا خرچ کرنا ہے.
□ الْمَقْصُودُ بِهَذَا الْكَلَامِ أَنَّ هَذَا الْقَائِلَ لَمَّا سَمِعَ كَلَامَ عَبْدِالله بْنِ عَمْروِ بْنِ الْعَاصِ… وَذِكْرَ الْحَدِيثِ فِي تَحْرِيمِ مُنَازَعَةِ الْخَلِيفَةِ الْأَوَّلِ وَأَنَّ الثَّانِيَ يُقْتَلُ فَاعْتَقَدَ هَذَا الْقَائِلُ هَذَا الْوَصْفَ فِي مُعَاوِيَةَ لِمُنَازَعَتِهِ عَلِيًّا رَضِيَ اللہ عَنْهُ وَكَانَتْ قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَةُ عَلِيٍّ فَرَأَى هَذَا أَنَّ نَفَقَةَ مُعَاوِيَةَ عَلَى أَجْنَادِهِ وَأَتْبَاعِهِ فِي حَرْبِ عَلِيٍّ وَمُنَازَعَتِهِ وَمُقَاتَلَتِهِ إِيَّاهُ مِنْ أَكْلِ الْمَالِ بِالْبَاطِلِ وَمِنْ قَتْلِ النَّفْسِ لِأَنَّهُ قِتَالٌ بِغَيْرِ حَقٍّ فَلَا يَسْتَحِقُّ أَحَدٌ مَالًا فِي مُقَاتَلَتِهِ.
شرح مسلم للنووی
خلاصة التحقیق
گویا کہ حدیث کو سن کر عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ یہ سمجھا کہ شاید اس روایت کے مصداق معاویہ رضی اللہ عنہ بن سکتے ہیں، نہ کہ وہ حضرت معاویہ کو لٹیرا، ڈاکو یا قاتل سمجھ رہے تھے.
فتنہ محمد علی مرزا
شروع میں اس شخص کی باتوں کو بندہ نے کافی سپورٹ کیا تھا کیونکہ علمی باتیں لگ رہی تھیں لیکن آہستہ آہستہ اس نے حُبّ آل رسول کی آڑ میں اکابر صحابہ کرام جیسے حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم وغیرہ پر طعن و تشنیع شروع کردی جس سے اس کی رافضیت کھل کر سامنے آگئی اور ہر روز اس شخص کا جہل اور محض اردو ترجمے کے سہارے چلنا واضح ہورہا ہے، یہ شخص حقیقی علم سے کوسوں دور ہے.
تمام مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اس فتنے سے دور رہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم اجمعین کے بارے میں اس کی باتیں نہ سنیں
خلاصہ کلام
مشاجراتِ صحابہ (یعنی صحابہ کرام کے اختلافات اور لڑائیاں) ایک بہت ہی نازک باب ہے، اس معاملے میں جس قدر احتیاط کی جائے وہی بہتر ہے کہ اس نازک موضوع کو چھیڑ کر کسی ایک صحابی کو مجرم قرار دیا جائے.
محمد علی مرزا نے جن دو روایات کو بیان کرکے حضرت معاویہ کو مجرم بنانے کی کوشش کی ہے وہ علمی خیانت ہے، اللہ تبارک وتعالی اس فتنے سے تمام امت کی حفاظت فرمائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٥ ستمبر ٢٠١٩ کراچی