تنبیہ نمبر 227

جو اَمَاں ملی تو کہاں ملی

سوال
مندرجہ ذیل مضمون میں دور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دو واقعات ذکر کئے گئے ہیں، ان کی تحقیق مطلوب ہے:
١. پہلا واقعہ
مدینہ کی مسجد ہے! پوری ذمہ داری کے ساتھ سورج جلجلا رہا تھا، اک لمبے گول دائرے میں رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور صحن صحابہ کرام ؓسے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔۔
سامنے مسجد کا دروازہ کھلا تھا جس سے سامنے گہری ریت سے اٹی خشک ریتلی سڑک نظر آرہی تھی۔۔۔ اچانک ایک عورت بال کھلے ہوئے ننگے پیر مٹی سے اٹی ہوئی گذری، ٹھٹھک کے رکی، رخ دروازے کو کرکے پانچوں انگلیوں سے اشارہ کیا کہ ادھر آؤ.. رسول اللہ ﷺ سامنے تشریف فرما رہے تھے، جھٹکے سے اٹھے اس قدر جلدی میں اٹھے کہ ننگے پاؤں ہی دروازے سے باہر رکھ دیئے۔۔۔ ایک پہر گذرا، دوسرا گذرا اور پھر تیسرا۔۔۔ وہ عورت اپنے ہی حواس می‍ں ہنوذ باتیں کرتی رہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنتے رہے سنتے رہے! وہ ہاتھ ہلاتی فضا می‍ں اشارے کرتی آپ مسکرا کے سر ہلا دیتے۔۔۔
اس کشمکش میں اصحاب پریشان بیٹھے تھے۔ اچانک وہ عورت دوبارہ آنے کا کہہ کر چلی گئی۔ آپ ﷺ سر ہلا کر واپس مسجد میں داخل ہوئے۔ پورا جسم سخت گرمی ریت کی جلن کے درحق پسینے میں ڈوب گیا تھا یہانتک کہ بالوں سے پانی ٹپکنے لگا تھا… حضرت عمر ؓسے رہا نہ گیا، کہا: یا نبیِ برحق صلی الله علیہ وسلم! وہ تو پاگل دیوانی عورت ہے، آپ کیوں اسکی عبث بات اتنی دیر کھڑے سنتے رہے؟
فرمایا: عمر!!! اس عورت کی پورے مدینہ میں کوئی نہیں سنتا.. کیا میں محمد ﷺ بھی اسکی نہ سنوں؟
٢. دوسرا واقعہ
حاتم طائی کی بیٹی گرفتار کر کے لائی گئی…
سرکار ﷺ کندھے پہ سیاہ چادر لٹکا کے بیٹھے تھے. جوں ہی وہ احاطے میں داخل ہوئی تو کسی نے کہا: دخترِ حاتم طائی.. جھٹ سے اٹھے، کندھے کی چادر گھسیٹ کر کھینچی، مٹی پہ بچھا کر انہیں بیٹھنے کا کہا۔ وہ بولی: میں حاتم کی بیٹی ہوں! دور ہٹ گئے۔
کسی نے کہا: عیسائی کی بیٹی ہے اور اتنی تعظیم؟ فرمایا: سخی کی بیٹی ہے، مجھے سخی کی بیٹی سے حیا آتی ہے۔
اُس مقام پہ کہ جہاں گردنیں اترتی ہوں، عزتیں اچھلتی ہوں وہاں اک بےدیار عورت کو اتنی تعظیم ملی کہ الٹے پاؤں واپس دوڑی اور اپنے بھائی عدی بن حاتم کو پکڑ کر ساتھ لائی اور کہا کہ کلمہ پڑھوائیے…
کیا یہ دونوں واقعات درست ہیں؟
(سائل: ایڈمن سلمان ھاشمی)
الجواب باسمه تعالی

یہ دونوں واقعات جس طرح لکھے گئے ہیں بعینه اس طرح کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں واقعات من گھڑت ہیں.

صحیح روایات سے ثابت صحیح واقعات

اس مضمون کی صحیح روایات مندرجہ ذیل ہیں:

١.. پہلے واقعے کے متعلق
١. پہلی روایت

حضرت انس کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت تھی جو تھوڑی پگلی تھی وہ آپ علیہ السلام کے پاس آتی اور کہتی کہ یارسول اللہ! مجھے آپ سے کام ہے تو آپ علیہ السلام فرماتے کہ تجھے جس گلی میں کام ہے وہاں کھڑی ہوجاؤ میں تمہارے ساتھ کھڑا رہونگا، تو وہ عورت دیر تک آپ علیہ السلام سے بات چیت کرتی اور آپ علیہ السلام بھی کھڑے رہ کر اسکی بات سنتے رہتے.

□ وقد بَيَّن ثابت البناني في روايته عن أنس معنى هذا الحديث، فروى ابن حبان في صحيحه (4527) من طريق ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ امْرَأَةً كَانَ فِي عَقْلِهَا شَيْءٌ، فَقَالَتْ: يَارَسُولَ الله! إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً؟ فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “يَا أُمَّ فُلَانٍ! خُذِي أَيَّ الطُّرُقِ شِئْتِ، فَقُومِي فِيهِ حَتَّى أَقُومَ مَعَكِ”. فَخَلَا مَعَهَا رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَاجِيهَا، حَتَّى قَضَتْ حَاجَتَهَا. (وصححه الشيخ شعيب الأرناؤوط في تعليقه على صحيح ابن حبان).
٢. دوسری روایت

ایک باندی (اور بعض روایات میں ہے کہ ایک بچی) آپ علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر مدینہ کی گلیوں میں لے چلتی تھی اور آپ علیہ السلام اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے.

□ ما ورد في بعض ألفاظ الحديث عند ابن ماجة (417)، وأحمد (12780) من طريق عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: إِنْ كَانَتِ الْأَمَةُ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَتَأْخُذُ بِيَدِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا يَنْزِعُ يَدَهُ مِنْ يَدِهَا حَتَّى تَذْهَبَ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ مِنَ الْمَدِينَةِ، فِي حَاجَتِهَا.
□ أما ما رواه البخاري (6072) عن أنس رضي الله عنه أنه قَالَ: إِنْ كَانَتِ الأَمَةُ مِنْ إِمَاءِ أَهْلِ المَدِينَةِ، لَتَأْخُذُ بِيَدِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَنْطَلِقُ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ.
٢.. دوسرے واقعے کے متعلق
حاتم طائی کی بیٹی

سن ٩ ہجری کو آپ علیہ السلام نے ایک چھوٹا لشکر طئ کے بت فلس کو توڑنے کیلئے بھیجا اور حضرت علی کو امیر مقرر کیا، اس لشکر نے بت توڑا اور وہاں سے بہت سارے قیدی لے کر آئے جن میں حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی. ان قیدیوں کو مسجد نبوی کے دروازے پر ایک حجرے میں رکھا گیا. ایک دن آپ علیہ السلام گذرے تو سفانہ بنت حاتم طائی نے آواز دی یارسول اللہ! ہم پر احسان کیجئے کہ ہمارا رکھوالا بھاگ گیا.. آپ علیہ السلام نے فرمایا: کون رکھوالا؟ تو عرض کیا کہ عدی بن حاتم.

تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ جو اللہ اور اس کے رسول سے بھاگنے والا ہے، یہ کہہ کر آپ علیہ السلام چل دیئے، اگلے دن پھر ایسا ہوا اور آپ علیہ السلام نے وہی جواب دیا.. تیسرے دن آپ علیہ السلام نے آزاد فرمایا… إلی اخرہ.

□ في ربيع الآخر من السنة التاسعة من الهجرة النبوية، بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عليَّ بن أبي طالب رضي الله عنه في خمسين ومائة رجل من الأنصار، على مائة بعير وخمسين فرساً، ومعه راية سوداء ولواء أبيض إلى الفُلْس (صَنَم طيِّيء) فيما عُرِف في السيرة النبوية بسرية طيّىء، فشنُّوا الغارة على محلَّة آل حاتم مع الفجر، فهدموا الفُلْس وحرقوه، ورجعوا ومعهم الكثير من السَبْي (الأسرى) والنَّعم والشاء، وفي السبي سُفَّانة أخت عدي بن حاتم الطائي المشهور، وهرب عدي إلى الشام.
□ وفي السيرة النبوية لابن هشام والبداية والنهاية لابن كثير وغيرهما: فجُعِلت بنت حاتم (سفانة) في حظيرة بباب المسجد، كانت السبايا يُحْبَسْن فيها، فمرَّ بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقامت إليه، وكانت امرأة جزلة، فقالت: يارسول الله، هلك الوالد، وغاب الوافد، فامنن عليَّ من الله عليك، قال: ومن وافدك؟ قالت: عدي بن حاتم، قال: الفار من الله ورسوله؟ قالت: ثم مضى رسول الله صلى الله عليه وسلم وتركني، حتى إذا كان من الغد مرَّ بي، فقلت له مثل ذلك، وقال لي مثل ما قال بالأمس، قالت: حتى إذا كان بعد الغد مر بي وقد يئست منه، فأشار إلي رجل من خلفه أن قومي فكلميه، قالت: فقمت إليه، فقلت: يارسول الله هلك الوالد، وغاب الوافد، فامنُن عليَّ مَنَّ الله عليك، فقال صلى الله عليه وسلم: قد فعلت، فلا تعجلي بخروج حتى تجدي من قومك من يكون لك ثقة، حتى يبلغك إلى بلادك، ثم آذنيني (أخبريني)، فسألت عن الرجل الذي أشار إلي أن أكلمه فقيل: علي بن أبي طالب، وأقمت حتى قدم ركب من بِلى أو قضاعة، قالت: وإنما أريد أن آتي أخي بالشام، قالت: فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يارسول الله! قد قدم رهط من قومي، لي فيهم ثقة وبلاغ، قالت: فكساني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحمَّلني، وأعطاني نفقة، فخرجت معهم حتى قدمت الشام.

ان دونوں واقعات کا مصدر بظاہر تاریخ کی کتب میں منقول یہ واقعہ نظر آتا ہے

جب عدی بن حاتم مسلمان ہونے کی نیت سے مدینہ حاضر ہوا تو آپ علیہ السلام نے اکرام کیا اور عدی کو لے کر گھر چل دیئے، راستے میں ایک بوڑھی عورت آپ علیہ السلام کے ساتھ کھڑی ہوئی اور دیر تک بات کی تو عدی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یہ بادشاہوں والا مزاج نہیں، پھر گھر پہنچے تو مجھے کھجور والا تکیہ دیا اور خود زمین پر بیٹھ گئے، میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ یہ بادشاہ نہیں بلکہ نبی ہیں.

□ فسلم عليه وقال: من الرجل؟ فقال: عدي بن حاتم، فأخذه الرسول صلی الله عليه وسلم وأكرمه وفي الطريق وجد سيدة ضعيفة استوقفته فوقف الرسول صلی الله عليه وسلم وكلمها كثيرًا في حاجتها، ثم أخذني لداره وأعطاني وسادة من أدم محشوة ليفًا لكي يجلس عليها وجلس الرسول صلی الله عليه وسلم على الأرض، قال حاتم في نفسه: انه ليس ملكًا من يكلم سيدة في حاجتها.
خلاصہ کلام

سوال میں مذکور دونوں واقعات درست نہیں اور اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا جھوٹ ہے، لیکن افسوس کہ آج ہر شخص چاہے پڑھا لکھا ہو، عالم ہو، خطیب ہو مگر وہ اللہ کے نبی کے نام پر اس قدر دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے اور لکھتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے…

خدارا!! سب مسلمان اس معاملے میں احتیاط کریں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٧ ستمبر ٢٠١٩ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں