تنبیہ نمبر 233

دعائے نور کی فضیلت

سوال
ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالی نے آپکو سلام کہا ہے اور دعائے نور کا یہ تحفہ آپکی امت کیلئے بھیجا ہے کہ یہ دعا پہلی امتوں پر نہ بھیجی تھی مگر تمہاری امت کی بخشش کا سبب کرکے بھیجتا ہوں، اس دعا کو پڑھنے والا اور پاس رکھنے والا عیش وعشرت سے دنیا میں رہےگا اور ایمان کی سلامتی سے مرےگا اور قیامت کے دن اسکا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن اور نورانی ہوگا، اسے دیکھ کر حشر کی سب خلقت کہےگی کہ شاید یہ کوئی پیغمبر یا ولی ہے، غیب سے ندا ہوگی کہ یہ بندہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہے لیکن یہ مرتبہ اور فضیلت اسکو دعائے نور پڑھنے کے سبب حاصل ہوئی ہے۔
اب اہلِ اسلام پر لازم ہے کہ یہ دعا ہر محلے میں پہنچا دیں، بخل نہ کریں اور چُھپا کر نہ رکھیں، اگر کوئی اس میں بخل کرےگا تو وہ قیامت کے روز شفاعت ہی سے محروم رہےگا۔ اس دعا کے پڑھنے والوں پر قرض نہ رہےگا اور نہ وہ بیمار ہوگا، ہمیشہ صحت وسلامتی سے رہےگا اور اسکا رکھنے والا بلاؤں، غم اور ظالموں کے ظلم سے آزاد رہےگا، اگر جنگ پر جائےگا تو فتح ونصرت ہوگی اور تیر و شمشیر و بندوق اس پر اثر نہ کرےگی اور کوئی مشکل اس پر نہ پڑےگی، اگر سفر کو جائےگا تو صحیح سلامت واپس آئےگا، بادشاہوں کے نزدیک سُرخرو رہےگا اور اس دعا کے پاس رکھنے والے پر اللہ تعالی کی نظرِرحمت ہوگی۔
دعائے نور
اَللَّهُمَّ يَا نُورُ تَنَوَّرتَ بِالنُّورِ وَالنُّورُ في نُورِ نُورِكَ يَانُورُ، اَللَّهُمَّ بَارِك عَلَينَا وَادفَع عَنَّا بَلَائَنَا يَارَؤُوفُ لَبَّيكَ وَاَكْرِمْ لَبَّيكَ وَاَن يَبعَثَ مَن فِی الْقُبُورِ، اَللَّهُمَّ ارْزُقْنَا خَیرَ الدَّارَینِ مَعَ الْقُربِ وَالْاِخْلَاصِ وَالْاِسْتِقَامَةِ بِلُطفِكَ وَصَلَّی اللہُ عَلَی خَیرِ خَلقِهِ مُحَمَّدٍ وَّالِهِ وَاَصحَابِهِ اَجمَعِینَ وَسَلَّمَ تَسلِیمًا کَثِيرًا کَثِيرًا بِرَحمَتِكَ يَا اَرحَمَ الرَّاحِمِين.
کیا یہ دعا اور اسکے یہ فضائل درست ہیں؟
الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور دعا والی روایت کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، البتہ یہ دعا مختلف الفاظ کے ساتھ شیعوں کی کتابوں میں مختصر اور طویل الفاظ کے ساتھ منقول ہے لیکن اس پر خود شیعہ علماء نے رد کیا ہے

شیعہ کتب میں دعائے نور کا وجود

یہ دعا دعائے نور اور حرزِ فاطمہ کے نام سے مختصرا منقول ہے، البتہ یہ طویل دعا اور اس کی فضیلت کہیں سے ثابت نہیں

حضرت فاطمہ اس دعا کا اہتمام کرتی تھیں اور دوسروں کو اس کی تلقین کرتی تھیں.

○ دعایی به نام “دعای نور” و “حرز فاطمه” مشهور است و در کتب روایی معتبر ثبت است که هم مختصر است و هم این ثواب های طولانی در روایت آن نقل نشده است. حضرت زهرا این دعا را به سلمان یاد داد و به مواظبت و توسل پیوسته به آن دعا توصیه کرد و گفت کسی که بر این دعا استمرار داشته باشد، هیچ گاه به تب گرفتار نمی شود و دعا به این شرح است:
دعا مندرجہ ذیل ہے
بسم الله النور، بسم الله نور النور، بسم الله نور على نور، بسم الله الذي هو مدبر الأمور، باسم الله خالق النور من النور، والحمد لله الذي خلق النور، وأنزل النور على الطور، في كتاب مسطور (بقدر مقدور) على نبي محبور، الحمد لله الذي هو بالعز مذكور، وبالفخر مشهور، وعلى السراء والضراء مشكور، وصلى الله على سيدنا خير خلقه محمد وآله الطاهرين الميامين المباركين الأطهار وسلم تسليما دائما كثيرا

آگے لکھتے ہیں کہ:* جو دعا اور اس کی فضیلت نقل کی گئی ہے یہ ہمیں کہیں نہیں ملی اور یہ من گھڑت ہی معلوم ہوتی ہے.

○ اما دعایی که شما نقل کرده اید با آن همه ثواب را در جایی نیافتیم و همه نرم افزارهای موجود را جستجو کردیم و ظاهرا این از دست ساخت های دراویش باشد.

دعائے نور اور حرز فاطمہ کے شیعہ کتب میں حوالے)

١. راوندی، دعوات، قم، مدرسه الامام المهدی، 1407 ق، ص:208.
٢. مجلسی، بحار الانوار، بیروت، الوفا ،1404 ق، ج:2، ص:256 257.
٣. المائدة (5) آیة: 26.
٤. کلینی، کافی، تهران، اسلامیه، 1365 ش، ج:2، ص:520.
خلاصہ کلام

سوال میں مذکور روایت بلکل بھی درست نہیں، نہ اس کی سند موجود ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت، اور اس کے الفاظ بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کسی کی بنائی ہوئی دعا ہے، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا بلکل بھی درست نہیں

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٩ نومبر ٢٠١٩ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں