تنبیہ نمبر 239

آپ علیہ السلام کا اپنی امت کیلئے درد

سوال
پیر ثاقب رضا مصطفائی صاحب کے بیان میں یہ بات سنی ہے کہ
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے جب حضور علیہ السلام کو لحد میں اتارا تو حضرت فضل بن عباس دائیں بائیں جاتے تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ حضور کے قریبی ہیں، چچا زاد بھی ہیں، حضور علیہ السلام سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں تو جائیں، تو یہ حضور علیہ السلام کی لحد میں اتر گئے، کفن کی پٹیاں کھولیں تو دیکھا کہ آپ علیہ السلام کے لب مبارک ہل رہے تھے، جب سننے کیلئے کان قریب کئے تو آپ علیہ السلام فرما رہے تھے: “رَبِّ ھَبْ لِی اُمَّتِی” کہ یااللہ! میری امت کا معاملہ میرے ہاتھ میں دے دے…
              کیا یہ درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند یا غیرمستند کتابوں میں منقول نہیں حتی کہ موضوعات کی کتب میں بھی موجود نہیں

آپ علیہ السلام کی قبر مبارک میں اترنے والے صحابہ

■قبر مبارک میں اترنے والے حضرات کے متعلق مختلف روایات منقول ہیں

پہلی روایت
*1* علي بن أبي طالب ، *2* الفضل بن العباس ، *3* قثم بن العباس ، *4* شقران مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم *5* وأوس بن خولي رضي الله عنه
دوسری روایت

آپ علیہ السلام کو بنی عبدالمطلب نے قبر میں اتارا

□محمد بن عبد الله الأنصاري أخبرنا الأشعث بن عبد الملك الحمراني عن الحسن أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أدخله القبر بنو عبد المطلب
تیسری روایت
علی بن ابی طالب ،فضل بن عباس، اسامہ بن زید، عبدالرحمن بن عوف
□أخبرنا وكيع بن الجراح وعبد الله بن نمير عن إسماعيل بن أبي خالد عن عامر قال دخل قبر النبي صلى الله عليه وسلم علي والفضل وأسامة قال عامر وأخبرني مرحب أو بن أبي مرحب أنهم أدخلوا معهم القبر عبد الرحمن بن عوف
چوتھی روایت

صحابہ کرام نے آپ علیہ السلام کے خاندان کیلئے تدفین کا معاملہ چھوڑ دیا تھا

حضرت عباس ، حضرت علی اور فضل بن عباس اور حضور کے غلام نے نہلایا بھی اور دفنایا بھی

□أخبرنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد الزهري عن أبيه عن صالح بن كيسان عن بن شهاب قال ولي وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبره هؤلاء الرهط الذين غسلوه العباس وعلي والفضل وصالح مولاه وخلى أصحاب رسول الله بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهله فولوا إجنانه

*آپ علیہ السلام کی قبر میں سے سب سے آخر میں کون نکلے تھے*

اس کے متعلق روایات میں مختلف اقوال منقول ہیں
١) پہلا قول

سب سے آخر میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اترے تھے

١. پہلی روایت

جب آپ علیہ السلام کو قبر مبارک میں رکھا گیا تو حضرت مغیرہ نے کہا کہ پیروں کی طرف کچھ کمی رہ گئی ہے اس کو ٹھیک کردو، لوگوں نے کہا کہ آپ ہی اتر کر درست کرلیں، تو مغیرہ بن شعبہ اترے اور آپ علیہ السلام کے قدموں کو ہاتھ لگایا اور پھر کہا کہ مٹی ڈالو اور جب تک پنڈلیوں تک مٹی نہیں پہنچی وہ قبر میں رہے، پھر قبر سے نکلے اور بعد میں کہتے تھے کہ میں سب آخیر میں آپ علیہ السلام کے پاس تھا.

□ أخبرنا عفان بن مسلم أخبرنا حماد بن سلمة عن أبي عمران الجوني أخبرنا أبو عسيم شهد ذاك قال: لما وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم في لحده قال المغيرة بن شعبة: إنه قد بقي من قبل رجليه شيء لو تصلحونه، قالوا: فادخل فأَصلِحه، فدخل فمسح قدميه صلى الله عليه وسلم ثم قال: أهيلوا علي التراب، فأهالوا عليه التراب حتى بلغ ساقيه فخرج فجعل يقول: أنا أحدثكم عهدا برسول الله صلى الله عليه وسلم.
٢. دوسری روایت

جب آپ علیہ السلام کو لحد میں رکھا گیا تو حضرت مغیرہ نے اپنی انگوٹھی قبر مبارک میں پھینک دی اور کہنے لگے: میری انگوٹھی میری انگوٹھی، لوگوں نے کہا کہ اتر کر انگوٹھی نکال لو تو وہ قبر میں داخل ہوئے اور انگوٹھی اٹھا کر کہنے لگے: مٹی ڈال دو اور پنڈلیوں تک مٹی پہنچنے تک وہ قبر میں رہے.

□ أخبرنا عبيدالله بن محمد بن حفص التيمي قال أخبرنا حماد بن سلمة عن هشام بن عروة عن عروة أنه قال: لما وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم في لحده ألقى المغيرة خاتمه في القبر ثم قال: خاتمي خاتمي، فقالوا: ادخل فخذه، فدخل ثم قال: أهيلوا علي التراب، فأهالوا عليه التراب حتى بلغ أنصاف ساقيه فخرج فلما سوي على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اخرجوا حتى أغلق الباب فإني أحدثكم عهدا برسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: لعمري لئن كنت أردتها لقد أصبتها.
١١) دوسرا قول

حضرت علی رضی اللہ عنہ اترے تھے

٣. تیسری روایت

اس روایت میں ہے کہ مغیرہ بن شعبہ نے جب انگوٹھی قبر مبارک میں پھینکی تو حضرت علی نے ان کو قبر میں اترنے سے منع کیا اور خود اتر کر ان کی انگوٹھی نکال کر دی.

□ أخبرنا محمد بن عمر حدثني عبدالرحمن بن عبدالعزيز عن عبدالله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم أن المغيرة بن شعبة ألقى خاتمَه في قبر النبي صلى الله عليه وسلم بعد أن خرجوا لينزل فيه فقال علي بن أبي طالب: إنما ألقيت خاتمك لكي تنزل فيه فيقال نزل في قبر النبي صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لا تنزل فيه أبدا ومنعه.
□ أخبرنا محمد بن عمر حدثني عبدالله بن محمد بن عمر بن علي عن أبيه قال: قال علي بن أبي طالب: لا يتحدث الناس أنك نزلت فيه ولا يتحدث الناس أن خاتمك في قبر النبي صلى الله عليه وسلم ونزل علي وقد رأى موقعه فتناوله فدفعه إليه.
١١١) تیسرا قول

قثم بن عباس رضی اللہ عنہما اترے تھے

٤. چوتھی روایت

ابن عباس سے کسی نے پوچھا کہ مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ وہ سب سے آخر میں آپ علیہ السلام کی قبر سے نکلے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ جھوٹ بولتے ہیں، قبر سے سب سے آخر میں قثم بن عباس نکلے تھے.

□ أخبرنا محمد بن عمر حدثني حفص بن عمر عن علي بن عبدالله بن عباس قال قلت: زعم المغيرة بن شعبة أنه آخر الناس عهدا برسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: كذب والله أحدث الناس عهدا برسول الله صلى الله عليه وسلم قثم بن العباس كان أصغر من كان في القبر وكان آخر من صعد.

امام حاکم کہتے ہیں کہ صحیح قول یہی ہے کہ آخری صحابی جو نکلے تھے وہ قثم بن عباس تھے جبکہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ والا قول درست نہیں

■قال الحاكم: أصح الأقاويل أن آخر الناس عهداً برسول الله صلى الله عليه وسلم قثم بن العباس ، قال ابن كثير وقول من قال إن المغيرة بن شعبة كان آخرهم عهداً ليس بصحيح.
سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد للشامي 339.
خلاصہ کلام

آپ علیہ السلام کو اپنی امت کیلئے جس قدر غم، فکر اور کڑھن تھی اس کیلئے قرآن و حدیث میں موجود صحیح روایات کافی ہیں، لہذا کمزور اور من گھڑت روایات کے ذریعے اس کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.


سوال میں مذکور واقعہ نہ سند کے لحاظ سے درست ہے اور نہ ہی تاریخی اعتبار سے درست ہے، لہذا اس کو بیان کرنے سے احتراز کیا جائے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٦ نومبر ٢٠١٩ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں