میت کو تلقین کرنا
سوال
ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک عالم صاحب مردے کو قبر میں تلقین کرنے کے متعلق روایت بیان کررہے ہیں جسکا مفہوم کچھ یوں ہے کہ مردے کو قبر میں دفن کرنے کے بعد اسکو مخاطب کرکے اسکو اللہ کے رب ہونے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے کی یاد دلاؤ…
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے
(سائل: مفتی خالد محمود صاحب اقرأ روضة الاطفال پاکستان)
الجواب باسمه تعالی
اس سوال کے جواب میں کچھ امور کا واضح ہونا ضروری ہے.
١. پہلا امر تلقین کے متعلق وارد روایات کی اسنادی تحقیق.
٢. دوسرا امر مرنے والے شخص کو تلقین کرنا.
٣. تیسرا امر تدفین کے بعد میت کیلئے دعا و استغفار کرنا.
٤. چوتھا امر مرنے والے کو قبر میں تلقین کرنے کے متعلق روایات.
١. پہلا امر
میت کو قبر میں تلقین کے متعلق وارد روایات کی اسنادی حیثیت
١. پہلی روایت
امام طبرانی المعجم الکبیر میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کر چکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کرکے کہے: اے فلاں ابن فلانہ! بےشک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا۔ پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو: اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو: اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے: ﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو۔ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ پھر وہ کہے کہ اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو ﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ لیکن ﷲ تعالیٰ نے اُس کو اُس کی حجت تلقین کی نہ کہ ان لوگوں نے۔ پھر ایک آدمی نے کہا: یارسول ﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو۔
□ إذا مات أحد من إخوانکم، فنثرتم عليه التراب، فليقم رجل منکم عند رأسه، ثم ليقل: يا فلان ابن فلانة! فإنه يسمع، ولکن لا يجيبثم ليقل: يا فلان ابن فلانة! فإنه يستوی جالسا، ثم ليقل: يا فلان ابن فلانة! فإنه يقول: أرشدنا رحمك ﷲ، ولکن لا تشعرون ثم ليقل: أذکر ما خرجت عليه من الدنيا، شهادة أن لا إله إلا ﷲ وأن محمدا عبده ورسوله، وأنك رضيت بالله ربا، وبمحمد نبيا، وبالإسلام دينا، وبالقرآن إماما، فإنه إذا فعل ذلك، أخذ منکر ونکير أحدهما بيد صاحبه، ثم يقول له: أخرج بنا من عند هذا ما نصنع به، فقد لقن حجته، ولکن ﷲ لقنه حجته دونهم، قال رجل: يارسول ﷲ! فإن لم أعرف أمه، قال: انسبه إلی حواء.
(المعجم الکبير للطبرانی، 8:249، الرقم:7979)
(مجمع الزوائد للهيثمی، 2:324؛ 3:45)
اس روایت کا حکم
یہ روایت سخت ترین ضعیف ہے
اس کی سند میں
*محمد بن ابراہیم بن العلاء الحمصی الشامی* ہے.
اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:
١. محمد بن عوف کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں چوری کرتا تھا۔
◇ کان یسرق الحدیث. (الکامل لابن عدی : ۲۸۸/۶)
٢. دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے
◇ فقد كذبهُ الدارقطني.
٣. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایات بناتا تھا
◇ وقال ابنُ حبان: يضعُ الحديثَ.
٤. امام حاکم کہتے ہیں کہ من گھڑت روایات نقل کرتا تھا
◇ وقال الحاكمُ والنقاشُ: روى أحاديث موضوعةً.
امام طبرانی رحمه اللہ کے استاذ
انس بن مسلم ابوعقیل بھی مجہول راوی ہیں.
اس روایت کا ایک اور راوی
عبداللہ بن محمد القرشی بھی مجہول راوی ہے.
سعید بن عبداللہ الاودی کی بھی توثیق نہیں مل سکی.
اسی لئے حافظ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں کئی راویوں کو میں نہیں جان پایا۔ (یعنی مجاہیل ہیں)
¤ وفی اسنادہ جماعة لم أعرفهم. (مجمع الزوائد: ۴۵/۳)
حافظ نووی رحمه اللہ لکھتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے
¤ قال الحافظ النووی رحمه اللہ: واسنادہ ضعیف.
وقال ابن الصلاح: لیس اسنادہ بالقائم
¤ اور ابن الصلاح نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح نہیں. (شرح المهذب: ۳۰۴/۵)
*حافظ عراقی رحمہ اللہ نے بھی اسے “ضعیف” کہا ہے.* (تخریج الاحیاء: ۴۲۰/۴)
علامہ صنعانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
محققین ائمہ کرام کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس پر عمل کرنا بدعت ہے، اس بدعت کو اختیار کرنے والوں کی کثرت دیکھ کر دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے.
¤ ویتحصل من کلام أئمة التحقیق أنه حدیث ضعیف، والعمل به بدعة، ولا یغتر بکثرۃ من یفعله. (سبل السلام: ۱۶۱/۲)
٢. دوسری روایت
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا عمل
□ أخرجهُ القاضي الخلعي في “الفوائدِ” (55/2) عن أبي الدرداء هاشم بنِ محمدٍ الأنصاري: ثنا عتبةُ بنُ السكنِ، عن أبي زكريا عن جابرِ بنِ سعيدٍ الأزدي قال: دخلتُ على أبي أمامةَ الباهلي وهو في النزعِ، فقال لي: يا اباسعيدٍ! إذا أنا متُ فاصنعوا بي كما أمر رسولُ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلم أن نصنعَ بموتانا فإنه قال: فذكرهُ…..
ابن مندہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میرے مرنے کے بعد جب مجھے دفنا چکو تو ایک انسان میری قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے: اے صدی بن عجلان! یاد کرو اُس عقیدے کو جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اس بات کی گواہی پر کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﷲ کے رسول ہیں.
علامہ البانی نے اس روایت کو ضعیف جدا قرار دیا ہے
¤ وهذا إسنادٌ ضعيفٌ جداً.
عتبة بن السكن
١. امام دارقطنی کہتے ہیں کہ متروک راوی ہے
◇ قال الدارقطني: متروكُ الحديثِ.
٢. امام بیہقی کہتے ہیں کہ واہی راوی ہے جس پر روایات گھڑنے کی تہمت ہے
◇ وقال البيهقي: واهٍ منسوبٌ إلى الوضعِ.
٣. اس روایت کو ابن حجر نے صالح قرار دیا ہے، لیکن اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اس کی سند میں کئی راوی مجہول الحال ہیں تو پھر سند کو صالح کس طرح کہا گیا ہے
٤. اسی بنیاد پر امام نووی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا
¤ وقد قال النووي في “المجموعِ” بعد أن عزاهُ للطبراني: وإسنادهُ ضعيفٌ.
٥. ابن صلاح کہتے ہیں کہ اس کی سند مضبوط نہیں
¤ وقال ابنُ الصلاحِ: ليس إسنادهُ بالقائمِ.
علامہ ابن القیم کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں
¤ وقال ابنُ القيمِ في “الزادِ” (1/206): لا يصحُ رفعه.
بعض تابعین کا عمل
بعض تابعین سے منقول ہے کہ وہ مٹی ڈالے جانے کے بعد تلقین کو پسند کرتے تھے.
□ وقال الصنعاني في “سبلِ السلامِ” (2/772) عند شرحهِ لحديثِ: ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ رَضِيَ الله عَنْهُ (أَحَدِ التَّابِعِينَ) قَالَ: كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ إذَا سُوِّيَ عَلَى الْمَيِّتِ قَبْرُهُ، وَانْصَرَفَ النَّاسُ عَنْهُ. أَنْ يُقَالَ عِنْدَ قَبْرِهِ: يَا فُلَانُ! قُلْ: لَا إلَهَ إلَّا الله، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، يَا فُلَانُ! قُلْ رَبِّي الله، وَدِينِي الْإِسْلَامُ، وَنَبِيِّي مُحَمَّدٌ، رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ مَوْقُوفًا.
المنار المنیف میں لکھتے ہیں کہ اس روایت کے من گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں، البتہ حمص کے کچھ لوگوں سے یہ عمل منقول ہے، گویا کہ یہ اہل شام کا معمول رہا ہے
¤ وَقَالَ فِي الْمَنَارِ: إنَّ حَدِيثَ التَّلْقِينِ هَذَا حَدِيثٌ لَا يَشُكُّ أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ فِي وَضْعِهِ، وَأَنَّهُ أَخْرَجَهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ فِي سُنَنِهِ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ حَبِيبٍ عَنْ أَشْيَاخٍ لَهُ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ فَالْمَسْأَلَةُ حِمْصِيَّةٌ.
ابن حجر سے منقول ہے کہ انہوں نے اس روایت کی سند کو ضعیف جدا قرار دیا ہے
¤ وقال الحافظُ ابنُ حجرٍ كما نقل عنه ابنُ علان في “الفتوحات الربانية” (4/196): هذا حديثٌ غريبٌ، وسندُ الحديثِ من الطريقين ضعيفٌ جداً.
امام سیوطی نے اس روایت کی تضعیف پر محدثین کا اتفاق ذکر کیا ہے
¤ وقد حكى السيوطي في “الحاوي” اتفاقَ المحدثين على تضعيف الحديثِ فقال: فلأن التلقينَ لم يثبت فيه حديثٌ صحيحٌ ولا حسنٌ بل حديثهُ ضعيفٌ باتفاقِ المحدثين.
٣. تیسری روایت
ابن حجر ہیتمی فرماتے ہیں کہ بعض لوگ تلقین میت کیلئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے بیٹے ابراہیم کو کی گئی تلقین سے استدلال کرتے ہیں لیکن وہ روایت درست نہیں
□ قال العلامة ابن حجر الهيتمي رحمه الله تعالى: واستدل له (أي لتلقين الصبي) بما لا يصح إنه صلى الله عليه وسلم لقن ابنه إبراهيم..
آپ علیہ السلام کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ابراہیم کا جب انتقال ہوا اور آپ علیہ السلام نے انکو قبر میں اتارا تو فرمایا کہ اے ابراہیم! جب فرشتے آئیں تو تم کہنا کہ میرا رب اللہ ہے، میرا نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور میرا دین اسلام ہے… الخ
□ يوم نام ابراهيم ابن الرسول عليه الصلاة والسلام في حضن أمه مارية وكان عمره ستة عشر شهراً والموت يرفرف بأجنحته عليه والرسول عليه الصلاة والسلام ينظر إليه ويقول له: يا إبراهيم! أنا لا أملك لك من الله شيئاً..
ومات إبراهيم وهو آخر أولاده فحمله الأب الرحيم ووضعهُ تحت أطباق التراب وقال له: يا إبراهيم! إذا جاءتك الملائكة فقل لهم: الله ربي ورسول الله أبي والإسلام ديني..
یہ روایت من گھڑت ہے۔
اہل تشییع کے ہاں تلقین کے عمل کیلئے ایک من گھڑت روایت سے استدلال
میت کو دفن کرنے کے اعمال میں سے ایک تلقین میت ہے اور اس کو میت کی قبر بند کرنے سے پہلے اور قبر بند کرکے تشیع جنازہ کرنے والوں کے واپس لوٹنے کے بعد بجالانا مستحب ہے۔
قابل ذکر بات ہے کہ: جس شخص نے اسلام میں سب سے پہلے تلقین کو انجام دیا، وہ پیغمبر اکرم صلی للہ علیہ وسلم تھے۔ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کو دفن کرنے کے دوران ان کے سرہانے پر بیٹھ کر فرمایا: اے فاطمہ! جب منکر اور نکیر تیرے پاس آئیں گے اور تجھ سے تیرے پروردگار کے بارے میں سوال کریں گے تو ان کے جواب میں کہنا: اللہ میرا خدا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے پیغمبر ہیں، اسلام میرا دین ہے، قرآن میری کتاب ہے اور میرے بیٹے، میرے امام اور ولی ہیں۔ پس ائمہ اطہار(ع) نے تلقین کے طریقہ کار اور اس کے مفاہیم کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش کے مطابق لوگوں کو تعلیم دی ہے۔ یہ روایت متعدد احادیث میں ذکر کی گئی ہے۔
٢. دوسرا امر
مرنے والے شخص کو تلقین کرنا
تلقین کی یہ صورت متفقہ طور پر جائز ہے، نیز احادیث صحیحہ اور تعامل امت سے ثابت بھی ہے.
١. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنے مرنے والوں کو لا اله الا اللہ کی تلقین کرو
□ روى مسلم والترمذي وغيرهما عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لقنوا موتاكم لا إله إلا الله”.
٢. امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو مرنے والا ہو
□ قال النووي في شرحه لصحيح مسلم كتاب الجنائز: قَوْله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَه إِلَّا الله” مَعْنَاهُ مَنْ حَضَرَهُ الْمَوْت، وَالْمُرَاد ذَكِّرُوهُ لَا إِلَه إِلَّا الله. كَمَا فِي الْحَدِيث: “مَنْ كَانَ آخِر كَلَامه لَا إِلَه إِلَّا الله دَخَلَ الْجَنَّة” وَالْأَمْر بِهَذَا التَّلْقِين أَمْر نَدْب.
٣. اور لکھتے ہیں کہ اس تلقین پر امت کا اجماع ہے
□ وَأَجْمَعَ الْعُلَمَاء عَلَى هَذَا.
٤. سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
رسول کریم ﷺ نے ایک انصاری آدمی کی تیمارداری کی، فرمایا: اے ماموں جان! لا اله الا اللہ کہہ دیں، اس نے کہا: ماموں یا چچا؟ اس نے کہا: کیا (لا اله الا اللہ) کہنا میرے لئے بہتر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں.
□ ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم عاد رجلا من الانصار، فقال: یا خال! قل: لا اله الا اللہ، قال: خال أم عمّ؟ قال: بل خال، قال: وخیر لی أن أقولها؟ قال: نعم. (مسند الامام احمد: ۲۶۸/۳، ح: ۱۳۸۶۲، وسندہ صحیح)
باب ماجاء فی تلقین المریض عند الموت والدعاء له عندہ
مریض کو موت کے وقت (لا اله الا اللہ کی) تلقین کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے کا بیان.
٦. نیز لکھتے ہیں
موت کے وقت مریض کو لا اله الا اللہ کہنے کی تلقین کرنا مستحب ہے، بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ آدمی ایک مرتبہ کہہ دے تو جب تک وہ اس کے بعد کلام نہ کرے، اسے تلقین نہ کرنی چاہیئے، نہ ہی اسے زیادہ کہنا چاہیئے۔
□ وقد کان یستحب ان تلقن المریض عند الموت قول لا اله الا اللہ.
وقال بعض أھل العلم: اذا قال ذٰلك فلا ینبغی أن یلقن، ولا یکثر علیه فی ھٰذا. (جامع ترمذی، تحت حدیث: ۹۷۷)
٧. امام ابن حبان رحمه اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے
قریب المرگ کو لا اله الا اللہ کی تلقین کرنے کے حکم کا بیان.
□ ذکر الأمر بتلقین الشهادۃ من حضرته المنیة. (صحیح ابن حبان، قبل حدیث: ۳۰۰۳)
*٨. ابن ملقن (البدر المنیر: ۱۸۹/۵) بھی اسے صحیح قرار دیتے ہیں کہ جس کا آخری کلام لا اله الا اللہ ہوگا، وہ جنت میں داخل ہوگیا، تلقین کرنے کا یہ حکم استحبابی ہے، علماء کا اسی (طریقۂ تلقین) پر اجماع ہے.* (شرح صحیح مسلم: ۳۰۰/۱)
تابعین کا عمل
جب علقمہ تابعی رحمه اللہ سخت بیمار ہوگئے تو فرمایا کہ میرے پاس ایک آدمی بٹھاؤ جو مجھے لا الہ الا اللہ یاد کرواتا رہے
□ لما ثقل علقمة قال: أقعدوا عندی من یذکّرنی لا اله الا اللہ. (مصنف ابن ابی شیبہ: ۲۳۶/۳، وسندہ صحیح)
تیسرا امر
● تدفین کے بعد میت کیلئے دعا و استغفار
عن عثمان بن عفان رضي الله عنه قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ : ( اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ”
(ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف (3221)
اس حدیث کو حاکم و ذھبی نے صحیح کہا، امام نووی نے فرمایا اس کی سند جید ہے۔ (مجموع: 5/292)
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس پر کھڑے ہو جاتے اور کہتے:
“اپنے بھائی کے لئے بخشش کی دعا کرو اور اس کے لئے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ اب اس سے سوال کیا جا رہا ہے۔”
مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں:
“فى الحديث مشروعية الإستغفار للميت عند الفراغ من دفنه و سؤال التشبيت له لأنه يسئل فى تلك الحال”(عون المعبود: 3/209)
اس حدیث میں میت کو دفن کرنے کے بعد اس کیلئے دعا و استغفار کی
مشروعیت معلوم ہوتی ہے
چوتھا امر
تدفین کے بعد قبر میں میت کو تلقین کرنا
اس متعلق امت میں دو اقوال پائے جاتے ہیں
تلقین میت فی القبر درست ہے
تلقین میت فی القبر درست نہیں
تلقینِ میت کے قائلین کے اقوال
١. امام نووی لکھتے ہیں کہ تلقین میت کو ہمارے اساتذہ نے پسند کیا ہے اور اس کی روایات اگرچہ کمزور ہیں لیکن دیگر روایات سے اس کو قوت ملتی ہے
□ قال الحافظ الفقيه النووي الشافعي في كتابه (روضة الطالبين وعمدة المفتين، كتاب الجنائز، باب الدفن) ما نصه: هذا التلقين استحبه جماعات من أصحابنا منهم القاضي حسين وصاحب التتمة والشيخ نصر المقدسي في كتابه التهذيب وغيرهم ونقله القاضي حسين عن أصحابنا مطلقا،
٢. ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ملک شام میں تدفین کے بعد تلقین میت کی جو عادت ہے یہ پسندیدہ عمل ہے اور اس کو ہمارے کئی احباب نے پسند کیا ہے
□ وقال الحافظ النووي في فتاويه: وأما التلقين المعتاد في الشام بعد الدفن فالمختار استحبابه.
٣. امام نووی کہتے ہیں کہ ابن صلاح سے تلقین میت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ ہم ایسا کرتے بھی ہیں اور پسند بھی ہے اور اس متعلق اگرچہ کمزور روایات منقول ہیں لیکن اس کے شواہد بھی موجود ہیں اور اہل شام کا بھی یہ عمل رہا ہے
□ قال الحافظ النووي في الأذكار: وسئل الشيخ الإمام أبوعمر بن الصلاح رحمه الله عن هذا التلقين فقال في فتاويه: التلقين هو الذي نختاره ونعمل به، وذكره جماعة من أصحابنا الخراسانيين قال: وقد روينا فيه حديثا من حديث أبي أمامة ليس بالقائم إسناده، ولكن اعتضد بشواهد وبعمل أهل الشام به قديما.
٤. علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ میت کو تلقین کرنا نہ تو واجب ہے اور نہ دور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ دور صحابہ میں یہ عمل ہوا ہے، بلکہ بعض صحابہ کرام جیسے: ابوامامہ اور واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہما سے منقول ہے اور بعض ائمہ جیسے امام احمد اور امام شافعی وغیرہ کچھ اصحاب سے اجازت منقول ہے، لیکن وہیں دیگر علماء اس کو بدعت قرار دیتے ہیں
□ قال الشيخ ابن تيمية رحمه الله في هذه المسألة فأجاب: تلقينه بعد موته ليس واجباً بالإجماع ولا كان من عمل المسلمين المشهور بينهم على عهد النبي وخلفائه بل ذلك مأثور عن طائفة من الصحابة كأبى أمامة وواثلة بن الأسقع، فمن الأئمة من رخص فيه كالإمام أحمد وقد استحبه طائفة من أصحابه وأصحاب الشافعى ومن العلماء من يكرهه لاعتقاده أنه بدعة.
٥. امام ابن عابدین شامی نے اس عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے
□ أما عند أهل السنة فالحديث أی: لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ محمول علی حقيقته، لأن ﷲ تعالی يحييه علی ما جاءت به الآثار. (رد المختار، 2:191)
اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث مبارکہ ’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو‘‘ کو اس کے حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائےگا کیونکہ ﷲ تعالیٰ تدفین کے بعد مردے میں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اس پر واضح آثار موجود ہیں۔
یعنی لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ کی تعمیل میں حالت نزع میں تلقین کی گئی تو یہ مجازی معنیٰ میں ہوگی اور مرنے کے بعد تلقین کی گئی تو یہ اِس حدیث کے حقیقی معنی پر عمل ہوگا۔ لہٰذا مجازی اور حقیقی دونوں معانی پر عمل کیا جائےگا کیوں کہ اِسی میں میت کا فائدہ ہے۔
٦. ملا علی قاری اپنی کتاب مرقاۃ المفاتیح (1:327) میں اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں
□ وقال ابن حجر: وفيه إيماء إلی تلقين الميت بعد تمام دفنه وکيفيته مشهورة، وهو سنة علی المعتمد من مذهبنا خلافاً لمن زعم انه بدعة کيف. وفيه حديث صريح يعمل به فی الفضائل اتفاقاً بل اعتضد بشواهد يرتقی بها إلی درجة الحسن.
حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ہمارے مذہبِ (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے۔ بخلاف اِس قول کے کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے۔ اور اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے، جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے اتنے شواہد و توابع ہیں جو اسے درجہ حسن تک پہنچا دیتے ہیں۔
٧. فتاوی فریدیہ میں لکھا ہے
لیکن تلقین بعد الممات کے متعلق نہ ’’ایں کارمے کنم ونہ انکار مے کنم‘‘ کا طرز عمل معمول رکھنا چاہیئے. (کما فی شرح التنویر) ولا یلقن بعد تلحیدہ، وان فعل لا ینهی عنه. (ھامش ردالمحتار ۱:۷۹۷)
(یعنی نہ ایسا کرینگے اور نہ اس سے منع کرینگے)
احناف فقہائےکرام کی رائے
١. صاحبِ ہدایہ لکھتے ہیں
اس سے قریب الموت مراد ہے.
□ المراد الذی قرب من الموت. (الهدایة، ص:۱۳۶، کتاب الجنائز)
٢. محشی ہدایہ اس کے تحت لکھتے ہیں
اس سے اس انسان کا وہم دور کرنا مقصود ہے جو یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ قبر پر تلقین کرنا چاہیئے۔
□ دفع توھم من یتوھم أن المراد به قرأۃ التلقین علی قبر.
٣. علامہ سندھی حنفی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں
مراد قریب المرگ ہے، نہ کہ جو فوت ہوچکا ہے، تلقین کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے پاس کلمہ کا ذکر کیا جائے، نہ کہ اسے حکم دیا جائے، موت کے بعد تلقین کو بہت سے علماء نے بدعت قرار دیا ہے، اس تلقین سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مرنے والے کا آخری کلام یہی ہو، اسی لئے جب وہ ایک مرتبہ کہہ دے تو دوبارہ اسے تلقین نہیں کی جائےگی، الا یہ کہ وہ کوئی اور بات کرلے.
□ المراد من حضرہ الموت، لا من مات، والتلقین أن یذکر عندہ، لا أن یأمرہ به، والتلقین بعد الموت قد جزم کثیر أنه حادث، والمقصود من ھٰذا التلقین أن یکون آخر کلامه لا اله الا اللہ، ولذٰلك اذا قال مرۃ فلا یعاد علیه الا أن تکلم بکلام آخر. (حاشیة السندی علی النسائی: ۵/۴، تحت حدیث:۱۸۲۷)
*٤. نیز لکھتے ہیں
دفن کرنے کے بعد تلقین نہیں کی جائےگی.
□ ولا یلقن بعد تلحیدہ. (تنویر الابصار:۱۱۹)
٥. شیخی زادہ حنفی (م:۱۰۷۶ھ) لکھتے ہیں
اکثر ائمہ و مشائخ کا کہنا ہے کہ یہ (قبر پر تلقین) جائز نہیں.
□ وقال الأکثر الأئمۃ المشائخ: لا یجوز. (مجمع الانهر:۲۶۴)
٦فتاویٰ عالمگیری میں ہے
“وصورة التّلقين أن يقال عنده في حالة النّزع قبل الغرغرة، جهراً وهو يسمع: «أشهد أن لا إله إلاّ اللّه وأشهد أنّ محمّداً رسول اللّه ولا يقال له قل ۔۔ واما التلقين بعد الموت فلا يلقن عندنا فى ظاهر الرواية كذا فى العينى شرح الهدايه و معراج الدراية”
(عالمگیری 1/157)
“تلقین کی صورت یہ ہے کہ حال نزع کے وقت موت کے غرغرے سے پہلے اونچی آواز میں اس کے پاس کہا جائے جسے وہ سن لے۔ “أشهد أن لا إله إلاّ اللّه وأشهد أنّ محمّداً رسول اللّه” اور اسے یہ نہ کہا جائے کہ کلمہ کہہ۔ اور جو تلقین موت کے بعد ہوتی ہے ہمارے نزدیک ظاہر الروایۃ وہ نہ کی جائے جیسا کہ عینی شرح الہدایہ اور معراج الدرایہ میں ہے
٧علامہ العلاء الحصکفی حنفی لکھتے ہیں
“ويلقن كلمة الشهادة قبل الغرغرة من غير امر ولا يلقن بعد الموت”
“موت کا غرغرہ آنے سے پہلے حکم دیے بغیر کلمہ شہادت کی تلقین کی جائے موت کے بعد تلقین نہ کی جائے” (الدرر المنتقی فی شرح الملتقی، 1/264)
٨علامہ علاء الدین الکاسانی الحنفی لکھتے ہیں*
“ويلقن كلمة الشهادة لقول النبى صلى الله لقنوا موتاكم لا اله الا الله والمراد من الميت المحتضر لأنه قرب موته فسمى ميتا لقربه من الموت قال الله تعالى “إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ””
(الزمر: 30، بدائع الصنائع 1/443)
“قریب المرگ کو کلمہ شہادت کی تلقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے کی جائے کہ اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔ میت سے مراد یہاں وہ شخص ہے جس پر جان کنی کا وقت ہو اس لئے کہ اس کی موت قریب ہے اسے میت قریب الموت ہونے کی وجہ سے کہا گیا ہے۔
٩علامہ عینی حنفی تلقین موتی کی توضیح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں
“لأن المقصود من ذلك أن يكون آخر كلام الميت كلمة الشهادة فالتلقين فى قبره لا يساعده المقصود وقد قال عليه السلام من كان آخر كلامه قول لا اله الا الله دخل الجنة ۔۔ وأما التلقين بعد الموت فلا يلقن عندنا فى ظاهر الرواية”
(البنایۃ فی شرح الھدایۃ 3/207’208)
اس تلقین سے مقصود میت کا آخری کلام کلمہ شہادت ہو قبر کے اوپر تلقین کرنے سے مقصود حاصل نہیں ہوتا، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ یہ تلقین مرنے کے بعد ہوتی ہے وہ ہمارے نزدیک ظاہر الروایۃ میں جائز نہیں۔
١٠شاہ اسحاق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
“اما تلقین میت بعد از موت پس دراں اقاویل علماء است در ظاھر روایت آن است کہ تلقین نہ کند” (مسائل اربعین، ص: 41)
“موت کے بعد میت کو تلقین کرنے میں علماء کے کئی اقوال ہیں ظاہر روایت کے مطابق تلقین نہ کی جائے۔”
ختامه مسك
علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب اعلاء السنن میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس تلقین کے متعلق اقوال موجود ہیں لیکن اب یہ شیعوں کا شعار اور طریقہ بن چکا ہے لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہئے
لانه قد صار شعار الروافض وتركه أهل السنة ففيه خوف الفتنة فلا يلقن
ج 4 /14
خلاصہ کلام
تدفین کے بعد میت کو تلقین کرنے کے متعلق جس قدر مرفوع روایات نقل کی گئی ہیں وہ تمام احادیث سند کے لحاظ سے اس قدر کمزور ہیں کہ اس عمل کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں، البتہ شامی تابعین اور فقہائےکرام کی ایک جماعت سے اس عمل کا ثبوت ملتا ہے، اور بعض فقہاء احناف کا بھی یہی قول نقل کیا گیا ہے
لیکن جمہور احناف اور ظاہر الروایہ میں یہی ہے کہ اس عمل کو نہ کیا جائے جبکہ اب یہ عمل شیعوں کے شعار میں داخل ہوچکا ہے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٣ دسمبر ٢٠١٩ کراچی