تنبیہ نمبر 247

سورج گرہن کی نماز میں قراءت

سوال
صلاہ کسوف (سورج گرہن کی نماز) کے بارے میں احناف کا یہ قول ہے کہ سری قراءت ہونی چاہیئے، لیکن آج کل عموما ہماری مساجد میں جہرا قراءت کی جاتی ہے، اسی طرح مفتی تقی عثمانی صاحب نے “درس ترمذی” میں فرمایا ہے کہ جہر کی گنجائش ہے…
اس بارے میں آپ کی رائے مطلوب ہے
(سائل: مفتی عبیدالرحمن، طارق روڈ، فاضل دارالعلوم کراچی)

الجواب باسمه تعالی

اس سوال کے جواب میں چند امور کو سمجھنا ضروری ہے.

١. سورج گرہن کی حقیقت

٢. سورج گرہن کی نماز میں قراءت کا طریقہ

١. سورج گرہن کی حقیقت

یہ اللہ تبارک و تعالی کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جس سے بندوں کو متوجہ کرنا مقصود ہوتا ہے.

حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت گئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو“.

□ حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبدالله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فزعاً، يخشى أن تكون الساعة، فأتى المسجد، فصلى بأطول قيام وركوع وسجود، ما رأيته قط يفعله، وقال: «هذه الآيات التي يرسل الله، لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن يخوف الله به عباده، فإذا رأيتم شيئاً من ذلك فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره»”۔ (صحيح البخاري:2/39)
٢. سورج گرہن کی نماز میں قراءت کا طریقہ

یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے، خود احناف کے درمیان اس میں مختلف اقوال ہیں:

١. امام ابوحنیفہ رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دن کی نماز ہے لہذا یہ نماز سری ہوگی

٢. امام صاحبین (امام ابویوسف اور امام محمد رحمهما اللہ) فرماتے ہیں کہ اس کو عید اور صلاة الاستسقاء پر قیاس کرتے ہوئے جہری قراءت کی جائےگی

موجودہ دارالافتاؤں کا فتوی

١. جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فتوے میں ہے

سری قراءت کی جائےگی

سورج گرہن کو “کسوف” کہتے ہیں، سورج گرہن کے وقت بھی دو رکعت نماز پڑھنا مسنون ہے، ہاں اگر تنہا پڑھ رہا ہو تو دو سے زیادہ بھی (چار، چھ) جتنی چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔

اس کی نماز کا بھی وہی طریقہ ہے جو عام نوافل کا ہے، اگر حاضرین میں جامع مسجد کا امام موجود ہو تو “کسوف” یعنی سورج گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیئے، اور اس نماز کے لئے اذان اور اقامت نہیں ہے، اگر لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے جمع کرنا مقصود ہو تو اعلان کردیا جائے، نیز اس نماز میں سورۂ بقرہ یا اس جیسی بڑی سورتیں پڑھنا (یعنی طویل قراءت) اور لمبے لمبے رکوع اور سجدے کرنا مسنون ہے، *اس نماز میں قراءت آہستہ آواز سے کی جائےگی،* نماز کے بعد امام دعا میں مصروف ہوجائے اور سب مقتدی آمین آمین کہیں، یہاں تک کہ سورج گرہن ختم ہوجائے.

٢. دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں ہے

صلاة کسوف (سورج گرہن کی نماز) میں قرأت امام ابوحنیفہ رحمه اللہ کے نزدیک سری ہے، اور امام ابویوسف وامام محمد رحمهما اللہ کے نزدیک جہری ہے، امام طحاوی اور امام احمد رحمهما اللہ نے جہر ہی کو اختیار کیا ہے، تعامل بھی جہر ہی پر ہے:

□ ویطیل القراءة ویخفیها لأنها نهاریة. وقالا: یجهر وهو اختیار الطحاوي وقول أحمد. (مجمع الأنهر: ۱/۲۰۵، بیروت)

(واللہ تعالیٰ اعلم…

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)

● نماز کے بعد مختصر وعظ و نصیحت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد خطبہ بھی ارشاد فرمایا جس میں جاہلیت کے مذکورہ بالا اعتقاد کی نفی فرمائی اور فرمایا:

اللہ تعالی سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہيں اے امت محمد! اور اسے شدید غیرت آتی ہے کہ اس کا بندہ یا بندی زنا کرے

اللہ کی قسم! جو کچھ مجھے معلوم ہے اگر تمہیں ہوجائے تو بہت زیادہ رونے لگوگے اور بہت کم ہنسوگے

پھر بیان فرمایا کہ جو میں نماز میں آگے بڑھا تھا پھر پیچھے ہٹا تھا تو مجھے جنت دکھائی گئی، قریب تھا کہ میں اس سے کوئی پھل اٹھا لوں، اگر اٹھا لیتا تو قیامت تک وہ باقی رہتا، اسی طرح سے جہنم کی آگ کی لپیٹیں دیکھیں تو ڈر گیا۔ اور یہ سب سے خطرناک ترین منظر میں نے دیکھا تھا

*جہنم میں اکثر عورتوں کو دیکھا، جس کا سبب شوہر کی ناشکری بتایا کہ زندگی بھر بھلائی کرتے رہنے کے باوجود اگر کبھی کوئی ایک خواہش پوری نہ ہو تو کہتی ہیں کہ تم سے کبھی خیر دیکھی ہی نہيں.*

خلاصہ کلام

سورج گرہن کی نماز میں قراءت کے متعلق دونوں طرح کے اقوال موجود ہیں، لہذا جس پر بھی عمل کیا جائے درست ہوگا، البتہ چونکہ اس نماز میں لمبی قراءت مسنون ہے اور موجودہ زمانے میں عوام پر عموما سستی کا عنصر غالب ہوتا ہے لہذا اگر جہری قراءت کی جائےگی تو توجہ بھی رہے گی اور نشاط بھی رہےگا.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
 ٢٤ دسمبر ٢٠١٩ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں