رمضان میں گناہوں کے وَبال کا بڑھ جانا
سوال
مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق مطلوب ہے:
حضرت ابوهریرہ رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺ اِرشاد فرماتے ہیں: “بیشک میری امّت ہرگز ذلیل نہیں ہوگی جب تک وہ رمضان المبارک کے روزوں کو قائم رکھےگی”، کسی نے دریافت کیا: یارسول اللہ! رمضان کے مہینے کو ضائع کرنے میں لوگوں کی ذلّت کیا ہے؟ آپﷺ نے اِرشاد فرمایا: “رمضان کے مہینے میں حرام کاموں کا ارتکاب کرنا”.
اس کے بعد آپﷺ نے رمضان کے مہینے میں گناہ کرنے کی سخت وعید بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا: “جو رمضان کے مہینے میں زنا کرے یا شراب پیئے اللہ تعالیٰ اور آسمان کے فرشتے اُس پر ایک سال تک لعنت کرتے رہتے ہیں، پس اگر وہ (اگلے سال) رمضان کے مہینے کو پانے سے پہلے پہلے مَرجائے تو اللہ تعالیٰ کے حضور اُس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جس کے ذریعہ وہ جہنم کی آگ سے بچ سکے”.
فرمایا: “رمضان کے مہینے میں (اللہ تعالیٰ سے) ڈرتے رہنا کیونکہ اِس میں نیکیوں (کے اجر) کو اِس قدر بڑھایا جاتا ہے جتنا رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں نہیں بڑھایا جاتا، اِسی طرح گناہوں (کے وَبال) کو بھی (اتنا بڑھا دیا جاتا ہے جتنا رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں نہیں بڑھایا جاتا”. (طبرانی اوسط:4827)
کیا یہ پوری روایت درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب میں منقول ہے.
ان أمتى لن تخزى ما أقاموا صيام شهر رمضان. قيل: يارسول الله! وما خزيهم فى إضاعة شهر رمضان؟ قال: انتهاك المحارم فيه، من زنا فيه أو شرب فيه خمرا لعنه الله ومن فى السموات إلى مثله من الحول، فإن مات قبل أن يدرك رمضان فليست له عند الله حسنة يتقى بها النار، فاتقوا الله فى شهر رمضان فإن الحسنات تضاعف فيه ما لا تضاعف فيما سواه، وكذلك السيئات. (الطبرانى:4983، وابن عدى عن أم هانئ. ابن عدى، وابن صصرى فى أماليه عن أبى هريرة)
– حديث أم هانئ: أخرجه ابن عدى (5/256، ترجمة 1403 عيسى بن سليمان بن دينار أبوطيبة الدارمى الجرجانى)
– وأخرجه أيضًا: الطبرانى فى الأوسط (5/112، رقم:4827)، وفى الصغير (2/16، رقم:697)، قال الهيثمى (3/144)
– حديث أبى هريرة: قال ابن عدى (5/256 ترجمة 1403) بعد أن ذكر حديث أم هانئ: وقد قيل فى هذا الحديث عن الأعمش عن أبى صالح عن أبى هريرة من طريق مظلم أيضًا.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کا بنیادی راوی عیسی بن سلیمان ابوطیبہ ہے.
ابن عدی لکھتے ہیں کہ اس راوی کی روایات محفوظ نہیں، یہ اچھا آدمی تھا، جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا تھا، لیکن اس کو شبہ پڑ جاتا تو روایات میں غلطی کرتا تھا.
أبو أحمد بن عدي الجرجاني: أحاديثه غير محفوظة، كان رجلا صالحا ولا أظن أنه كان يتعمد الكذب، ولكن لعله كان يشبه عليه فيغلط.
أبوحاتم کہتے ہیں کہ اس سے غلطیاں ہوتی تھیں.
قال أبوحاتم بن حبان البستي: يخطئ.
ابن رجب حنبلی کہتے ہیں کہ یہ حدیث درست نہیں.
قال الحافظ ابن رجب الحنبلي: وهذا الحديث لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.
ابن جوزی نے بھی “العلل المتناهية” میں اس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ یہ درست نہیں.
قال ابن الجوزي: هذا حديث لا يصح، كما في العلل المتناهية (3/537[
ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے اس روایت کے متعلق سوال کیا تو فرمایا کہ میری نظر میں یہ روایت من گھڑت ہے، اور مجھے یہ کلبی کی روایت معلوم ہوتی ہے.
وَسألت عَنْ حديث رَوَاهُ عَمَّارُ بْنُ رَجَاءٍ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي طَيْبَةَ، ثَنَا أَبِي أَبُو طَيْبَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: “إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تُخْزَى مَا أَقَامُوا صِيَامَ شَهْرِ رَمَضَانَ”….إلی آخرہ. (رقم الحديث: 763)
فَسَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: هَذَا حَدِيثٌ مَوْضُوعٌ عِنْدِي، يُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ مِنْ حَدِيثِ الْكَلْبِيِّ. (العلل لابن ابی حاتم: 2/72)
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا اور اس کو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
یکم مئی ٢٠٢١ کراچی