چھوٹی روٹی میں برکت
سوال
محترم مفتی صاحب!
مندرجہ ذیل پوسٹ کے بارے میں آپ کی رائے مطلوب ہے:
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ روٹی چھوٹی رکھی جائے، اس میں برکت ہوگی. (مسند بزار جلد:3، صفحہ:333)
یعنی روٹی کا سائز بہت زیادہ بڑا نہ کیا جائے. ایک جگہ روٹی بنتے ہوئے دیکھی، وہ ایسی تھی کہ سبحان اللہ! آٹھ سال کا بچہ اس کو کمبل بنا کے اوڑھ کر سو سکتا تھا. تو اس سے معلوم ہوا کہ روٹی کا چھوٹا ہونا بہتر ہے، سنت کے قریب ترین معاملہ ہے.
شاید کافی لوگ چھوٹی روٹی بناتے بھی ہوں گے لیکن سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت کرلیں تو وہی عمل آپ کے لئے اجر و ثواب اور برکت کا باعث بنےگا (ان شاء اللہ تعالیٰ) اور جو ذرا زیادہ بڑی روٹی بناتے ہیں وہ تھوڑی چھوٹی بنا لیں، ان شاء اللہ تعالی اس میں برکت ہوگی اور سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی ادا ہوگی.
ایک اور بھی وضاحت عرض کردوں کہ ہمارے ہاں جو چیز کثرت سے اور زیادہ تعداد میں یا حجم میں زیادہ ہو ہم اسے زیادہ سمجھتے ہیں. شریعت کچھ اور سکھاتی ہے. قلیل میں بھی برکت ہوجائے تو وہ کثرت پہ حاوی ہوتی ہے. یہ باتیں دل کی باتیں ہیں. سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم خواہ ہماری عقل میں نہ بھی آئے لیکن ہم اسے سنت کی نیت سے کرلیں. (گلدستہِ سنت از حضرت جی حافظ محمد ابراہیم نقشبندی مجددی دامت برکاتهم العالیہ)
مندرجہ بالا روایت کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت روٹی چھوٹی رکھی جائے اس میں برکت ہوگی یہ روایت مختلف الفاظ سے مختلف کتابوں میں منقول ہے.
١. پہلی روایت:
برکت چھوٹی روٹی میں ہے.
حديث: البَرَكَةُ فِي صِغَرِ القُرْصِ وَطُولِ الرِّشَاء وقِصَرِ الجَدْوَلِ”. [أخرجه الديلمي في الفردوس (2196) وانظر: اللآلئ المصنوعة، لجلال الدين السيوطي (2/183-184)، تنزيه الشريعة، أبو الحسن الكناني (2/296)، تذكرة الموضوعات، محمد طاهر الفتني (1/143)، كشف الخفاء للعجلوني (1/281)]
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
١. ابن جوزی نے امام نسائی کا قول نقل کیا ہے کہ یہ جھوٹ ہے.
قال ابن الجوزي: قال النسائي: هذا الحديث كذب. (الموضوعات لابن الجوزي:2/292).
٢. ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کو جھوٹ قرار دیا ہے.
وقال الحافظ ابن حجر نقلا عن النسائي أن هذا كذب.
٣. امام سخاوی کہتے ہیں کہ دیلمی نے اس کو ابن عباس سے بلاسند نقل کیا ہے.
شیخ البانی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک سند بنا کر ابن عباس والی روایت نقل کی ہے.
قال السخاوي: وهو عند الديلمي بلا سند عن ابن عباس. (المقاصد الحسنة:1/422).
(فيض القدير، شرح الجامع الصغير للمناوي، ج:٣، الصفحة ٢٧٨)
البرکة فی صغر القرص موضوع، افته الكديمي وله شاهد تالف. (سلسلة ضعيفة: ٥٤١/٧)
٢. دوسری روایت:
روٹی چھوٹی کرو اور اس کی تعداد زیادہ رکھو اس میں تمہارے لئے برکت ہوگی.
صغروا الخبز وأكثروا عدده يبارك لكم فيه.
امام احمد بن حنبل کے بیٹے کہتے ہیں کہ یہ روایت منکر ہے.
قال ابن أحمد: منكر لا شك فيه.
٣. تیسری روایت:
اپنے کھانوں کو اندازے سے استعمال کرو، اس میں برکت ہوگی.
قوتوا طعامكم يبارك لكم فيه.
یہ روایت ضعیف ہے.
قال الشيخ إسماعيل العجلوني في (كشف الخفاء): “كيلوا طعامكم يبارك لكم فيه”: رواه أحمد والطبراني عن أبي الدرداء، والقضاعي عن أبي أيوب كلاهما مرفوعاً، ورواه البزار عن أبي الدرداء بلفظ: “قوتوا”، وسنده ضعيف. وكذا أورده في النهاية: “قوتوا”، وحكى عن الأوزاعي أنه تصغير الأرغفة. وقال غيره: هو مثل: “كيلوا”، وحكاه البزار عن بعض أهل العلم. وقد أشار إلى ذلك في فتح الباري (4/346) في البيوع.
امام بزار نے اس روایت کی تشریح میں بعض اہل علم سے اور صاحبِ نهایہ نے اوزاعی سے نقل کیا ہے کہ اس سے مراد روٹی کا چھوٹا رکھنا ہے.
وحكى البزار عن بعض أهل العلم وصاحب النهاية عن الأوزاعي، أنه تصغير الأرغفة. (جمع الوسائل في شرح الشمائل، باب ما جاء في صفة خبز رسول الله صلى الله عليه وسلم).
خلاصہ کلام
روٹی چھوٹی ہونی چاہیئے، ایسی کوئی روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا درست نہیں، البتہ بعض علماء چھوٹی روٹی کو پسند کرتے تھے کہ اس میں کھانے کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے، لیکن بڑی روٹی بنانا بھی غلط نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢ مئی ٢٠٢١ کراچی